ٹھنڈا گوشت

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔

kirpan

kirpan

کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالبا اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کیبعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔

کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ جوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔

ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اسکی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان کو تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے مگر اسکے قدوقامت اور خدوخال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کیلئے موزوں ترین مرد ہے۔

چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی سے گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اسقدر کہہ سکی ” ایشر سیاں”
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کیطرف دیکھا مگر اسکی نگاہوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلائی ” ایشر سیاں ” لیکن فورا ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ سے اٹھ کر اسکی جانب جاتے ہوئے بولی ” کہاں رہے تم اتنے دن؟ ”
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، مجھے معلوم نہیں۔

کلونت کور بھنا گئی۔ یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔
ایشر سنگھ نے کرپان ایکطرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کیطرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اسکے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا ” جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟

ایشر سنگھ چھت کیطرف دیکھ رہا تھا اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ کلونت ”
آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ ہاں جانی۔ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

pagri

pagri

ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والے نگاہوں سے دیکھا۔ اسکے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا ” یہ کڑی یا دماغ خراب ہے”
جھٹکا دینے سے اسکے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا ” ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟
برے کی ماں کے گھر۔ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتا دونوں ہاتھوں سے اسکے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔

کلونت کور نے ایک ادا کیساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایکطرف جھٹک دیے اور پوچھا، تمہیں میری قسم، بتاؤ کہاں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر گئے تھے؟
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کو جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ نہیں۔
کلونت کور چڑ گئی، نہیں تم ضرور شہر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔
وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔

کلونت کور تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہو گئی، لیکن فورا ہی بھڑک اٹھی۔
لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا،اس رات تمہیں ہوا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ سارے گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بپھیاں لے رہے تھے، پر جانے ایکدم تمہیں کیا ہوا، اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔

ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔ دیکھا، کیسے رنگ نیلا پڑ گیا۔ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔
تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ” ایشر سیاں، کیا بات ہے؟َ تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟

ایشر سنگھ ایکدم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ جانی میں وہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھٹ گھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی، تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟
برے کیا ماں کا وہ ہو گیا تھا۔

بتاؤ گے نہیں؟
کوئی بات ہو تو بتاؤں۔
مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولوں۔
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اسکی گردن میں ڈال دیے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں پر گاڑ دیے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔

ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ” آ جاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے۔
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کیساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔ چل دفعان ہو۔
ایشر سنگھ نے اسکے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایکطرف ہٹ گئی۔ نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔

ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا ” لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جسطرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اسکو اتار کر ایکطرف رکھدیا۔ پھر اس نے گھور کے اسکے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ کلونٹ ، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔

کلونت کور اپنے بازو پر اھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔
ایشر سنگھ اپنے گھنی مونچھوں میں مسکرایا۔ ہونے دے آج ظلم۔ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ ابھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔

بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنیوالے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اسکا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کیطرح ابلنے لگی۔ لیکن اشیر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کیطرح استعمال کر دیے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔

کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔

یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اسکے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا، لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضاء کو سخت نا امیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی۔ اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھیلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے؟

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصے سے ابلنے لگی۔ میں پوچھتی ہوِں، کون ہے وہ چڈو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ الفتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ چور پتا؟
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔
کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کیساتھ کہا، ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہگورو جی کی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟

ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی، قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تکا بوٹی کر دونگی اگر تو نے جھوٹ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لے اب کھا واہگورو کی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کیساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کیطرح اتار کر ایکطرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔

kirpan and blood

kirpan and blood

آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کیطرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کیبعد نقاہٹ بھری التجا کی، جانے دے اب کلونت، جانے دے۔

آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کیطرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔

میری جان، تم نے بہت جلدی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، مگر وہ کون ہے؟ تمہاری ماں۔
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اسکا ذائقہ چکھا تو اسکے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کرپان سے۔
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی، میں پوچھتی ہوں۔کون ہے وہ حرام زادی؟
ایشر سنگھ کی آنکھیںدھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔
گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔
کلونت چلائی۔ میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، بتاتی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔ انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔
کلونت کور اسکے جواب کی منتظر تھی، ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر۔

ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلا چرا ہے ماں یا میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اسکے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت، میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کیطرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔

ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا، جس مکان پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سات آدمی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیے اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔

کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایکبار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں کتنی سندر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔

کلونت کور نے اسقدر کہاں، ہوں،
اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی چھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ پھر کیا ہوا؟
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن

blood red hand

blood red hand

اسکی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھجھوڑا، پھر کیا ہوا؟
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کیطرف دیکھا، جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی، وہ مری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

تحریر: سعادت حسن منٹو