پل بھر میں یہ کیا ماجرا ہو گیا ؟

Supreme Court Pakistan

Supreme Court Pakistan

سوئس حکام کو خط لکھے جانے کے حکومتی عندیئے اور عدالت کی جانب سے لکھے گئے حکومتی خط کے ڈرافٹ کی منظوری کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتی ڈیڈ لائن کے مطابق مذکورہ خط سوئس اٹارنی جنرل کے حوالے کر دیا جاتا ہے یا ایک بار پھر کوئی نئی توجیہہ اپنا کر مہلت حاصل کرنے کی روایت پرستی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔

لیکن خط میں صدر کو حاصل آئینی استثنا کے حوالے سے تذکرے کی موجودگی پر عدلیہ کی رضامندی اس اَمر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ چار سالہ سرد جنگ کے بعد حکومت اور عدلیہ دونوں ہی نے اپنے اپنے موقف سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا منظور کرلیا ہے کیونکہ عدلیہ کا مطمع نگاہ جمہوری نظام کو ڈی ریل ہونے سے بچانا جبکہ حکومت کا مقصد انتخابات میں ایک بار پھر کسی نہ کسی طور کامیابی حاصل کرنا ہے ‘ حکومت و عدلیہ کا یہ نیا روپ اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ حکومت پاکستان کے ”ہما ” کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور ”ہما ” نے عدلیہ کو جمہوریت کو لاحق خطرے کی نشاندہی کے ذریعے ”رام ” کرلیا ہے یوں صدر زرداری کی مفاہمت سیاست سے نکل کر اب عدالت پہنچ چکی ہے جسے ان کی سیاسی کامیابی بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس قدر دباؤ کے باجود صدر زرداری اور حکومت سے عدلیہ سے لیکر فوج تک ہر فیصلہ اپنے منتخب کردہ وقت کے اور اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کر اور کرا رہے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ عوامی مقبولیت کھودینے اور چہار سو سے دباؤ کا شکار ہونے کے باوجود حکومت نہ صرف قائم ہے بلکہ جیالے اور صدر زرداری بار بار اگلی بار اقتدار میں آنے کا اعلان بھی کررہے ہیں مگر سوئس حکام کو خط لکھے بغیر اس دعوے کو سچا ثابت کرنا ممکن نہیں ہے یہ بات حکومت کو روز اول سے معلوم تھی اسلئے وہ خط لکھنے کیلئے ہمیشہ سے تیار تھی مگر خط کا متن اور خط لکھنے کے وقت کا تعین اس نے پہلے سے کیا ہو اتھا اس لئے چار سال کے مسلسل انکار کے بعد وقت سازگار ہوتے ہی نہ صرف خط لکھنے کا عندیہ دے دیا بلکہ خط کا وہ متن بھی عدالت سے کامیابی سے منظور کرالیا جو این آر او کیس کھلتے ہی تیار کرلیا گیا تھا جبکہ جمہوریت بچانے کیلئے مسلسل تحمل کا مظاہرہ کرنے والی عدلیہ نے وسیع تر قومی مفاد میں وہی کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔

یوں حکومت بھی کامیاب ہوگئی اور عدلیہ کا وقار بھی محفوظ رہا اور ملک ایکبار پھر آمریت سے محفوظ ہوکر انتخابات کی جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ خط لکھ دیئے جانے اور عدلیہ کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ خارج ہو جانے کے بعد حکومت آئندہ عام انتخابات کا اعلان اور نگراں حکومت کی تشکیل کے کام کاآغاز کردے کیونکہ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کی چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز ہوتے ہی تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے مطمئن ہوکر انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ہر سیاسی جماعت خود کو قوم کا مخلص اور پاکستان کا نجات دہند ہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے ‘ نواز شریف احتساب بل کو مسترد کرکے عوامی حمایت کے حصول کی پہلی سیڑھی چڑھ چکے ہیں ۔

Imran Khan

Imran Khan

عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان مارچ کے ذریعے تحریک انصاف کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کی جو کوشش کی تھی ‘ ملالہ قاتلانہ حملہ سازش نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنادیا ہے اور قوم میں ڈرون حملوں کے خلاف جذبات کی شدت ملالہ پر حملے کے بعد ٹھنڈی ہوگئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سونامی کو پورے پاکستان میں پھیلاکرتبدیلی لانے اور یک جماعتی مضبوط جمہوریت قائم کرنے کی پالیسی ”بادشاہ گر ادارے ”کے سربراہ کی تبدیلی کے ساتھ ہی تبدیل ہوچکی ہے اور اب روایت کے مطابق ملک میں کمزورکثیر الجماعتی حکومت بنائی جائے گی جس کیلئے ایک جانب مسلم لیگ (ن) کو ایکبار پھر پس منظر سے پیش منظر میں لایا جارہا ہے اور تحریک انصاف کی رفتارکو کم کیا جارہا ہے ‘ اختر مینگل بھی طویل جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس تشریف لاچکے ہیں تو طویل خاموشی کے بعد طلال بگٹی نے بھی سیاسی رابطوں کا آغاز کردیا ہے’ قوم پرست بلدیاتی نظام کی مخالفت کا سہارا لیکر آگے بڑھ رہے ہیں تو نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے متحدہ’ مصطفی کمال والی کارکردگی ایکبا پھر پیش کرکے اپنے گراف کو مزید بلند کرسکتی ہے ۔

نئے پیر پگارا نے مسلم لیگ کو متحد کرنے میں ناکامی کے بعد اب سندھ کی حفاظت کا بیڑہ اٹھالیا ہے اور ق لیگ نے اپنے لوٹوں کو واپسی کیلئے گرین سگنل دینا شروع کردیا ہے اور صورتحال کچھ ایسی بن رہی ہے کہ عدلیہ اور فوج کی نگرانی میں ہونے والے ان انتخابات میں تمام روایتی سیاسی جماعتیں اپنی سابقہ کامیابیوں سے کم کامیابیاں حاصل کرپائیں گی کیونکہ تحریک انصاف پنجاب اور سرحد سے کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔قوم پرست سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہی نہیں بلکہ فنکشنل اور ق لیگ کو بھی نقصان پہنچائیں گے جس کا فائدہ نواز لیگ کو ہوگا ‘ متحدہ کراچی سے نکل ک سندھ میں کامیابی حاصل کرچکی ہے اب اس کی کامیابی کا سفر پنجاب ‘ سرحد’ بلوچستان اور گلگت بلتستان و کشمیر تک پھیلے گا مگر کراچی میں اس کے خلاف قوم پرستوں ‘ مسلم لیگ (ن) ‘ ق لیگ اور فنکشنل لیگ و جماعت اسلامی کا متحدہ محاذ کراچی میں اس کیلئے مسائل پیدا کریگا اور ہوسکتا ہے۔

کراچی سے اسے قومی و صوبائی کی ایک دوسیٹیں لوز کرنی پڑیں مگر قومی وسندھ اسمبلی میں اس کی نشستوں میں اضافہ ہوگا اور دیگر صوبوں کی اسمبلیوں میں بھی اس کی نمائندہ حیثیت قائم ہوجائے گی۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف روایتی سیاسی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد کم کرے گی تو ہزارہ تحریک کی وجہ سے بھی اے این پی کیلئے مسائل پیدا ہوں گے اسلئے سندھ میں سیٹوں کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا ہ میں اس بار اپنی اکثریتی حیثیت برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ پنجاب کی حکومت بھی مرکزی حکومت کی طرح چوں چوں کا مربہ ہوگی اور کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اسلئے جوڑ توڑ کی سیاست چلے گی۔ بلوچستان کی صورتحال بھی کچھ ایسے ہی رہے گی کیونکہ اول تو وہاں انتخابی ماحول پیدا کرنا اور پر امن انتخابات کا انعقاد کرانا ہی ممکن نہیں ہے۔

بغرض محال انتخابات ہوتے بھی ہیں تو شرح رائے دہندگی انتہائی کم ہوگی اور بلوچ قوم پرستوں کی مدد کرکے ن لیگ انہیں کچھ سیٹیں دلانے اور کچھ اپنے لئے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی’ پیپلز پارٹی بلوچستان سے اپنی اکثریتی حیثیت کھودے گی اور جے یو آئی کے ساتھ تحریک انصاف بھی بلوچستان کے نمائندہ ایوان میں داخل ہوجائے گی اس طرح بلوچستان میں بھی کمزور حکومت تشکیل پائے گی البتہ مرکز میں حمایت کے وعدے پر پیپلز پارٹی سندھ میں ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ کی مدد سے اپنی حکومت بناکر” آئندہ انتخابات میں بھی دوبارہ اقتدار میں آئیں گے ”کے صدر زرداری کے دعوے کو پورا کرے گی اور اسی مقصد کیلئے سوئس حکام کو خط لکھا جا رہا ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پیپلز پارٹی کیلئے سندھ میں بھی حکومت بنانا ممکن نہیں رہتا۔

کیونکہ عدلیہ کو بیک فٹ پر لے جانے والوں نے انہی شرائط کے تحت یہ ساری ڈیل کرائی ہے رہی بات مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی تو اب ان کا مستقبل صرف کھالیں اور چندہ جمع کرتے اور دھرنے و احتجاج کرتے ہی دکھائی دے رہا ہے کیونکہ خالی پیٹ انسان کو رب کے نزدیک کرتا ہے مگر بھوک کی شدت اسے حلال و حرام کی تمیز سے محروم کردیتی ہے اور قوم بدترین بھوک سے دوچار ہوچکی ہے اسی لئے چہرے کوئی بھی ہوں ‘ حکمران کوئی بھی بنے ‘ اقتدار کسی کو بھی ملے مگر حکومت وہی بنائیں گے جو ہمیشہ بناتے رہے ہیں اور یک جماعتی و مضبوط حکومت ان کے مفاد میں نہیں ہے اسی لئے ایسی کوشش کرنے کی پاداش میں ایک نا قابل اعتبار غیر ملکی پاکستانی کی جانب سے اٹھائے گئے ”میمو گیٹ اسکینڈل ” میں اس شخص کو گھر جانا پڑگیا ۔

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

جس کے پاس صدر و وزیراعظم سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں تو پھر اندازہ کیجئے کہ حکومت بنانے والے کون ہیں اور وہ کیا کیا کرسکتے ہیں ؟اور خط کیوں لکھا گیا ؟ کس نے لکھوایا اور عدالت نے چار سال بعد صدر زرداری کو حاصل استثنأ والے پیراگراف سمیت خط کی منظوری کیوں دی ؟ یہ سب اس ”ہُما ” کا کمال ہے جو جب کسی کے سرپر بیٹھتا ہے تو وہ حکمران بن جاتا ہے اور سر سے اترتا ہے تو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔حکمران بننے کے بعد ملک چھوڑ کر بھاگنے والے سیاستدانوں کی واپسی اس بات کا اشارہ کررہی ہے کہ ایک بار پھر انہیں باری ملنے والی ہے اور حکمرانوں کیلئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب ملک چھوڑنے کی ان کی باری ہے ۔

تحریر : عمران چنگیزی