کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی

i need

i need

کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی
میں نے ہنس کے لکھ دی تمہارے نام پہ زندگی

میں شروع سے ہی تھا راہِ عشق پہ گامزن
تھی عجیب شان کی اختتام پہ زندگی

یہ عجیب وقت تو شعر سے بھی بلند ہے
میں نے نظم چھوڑ کر لکھ دی شام پہ زندگی

وہ جو خواہشیں تھیں مسافتوں کی وہ کیا ہوئیں
یہ جو رک گئی ہے ترے قیام پہ زندگی

تیرے بارے میں موت کو چھو کے مجھ کو پتا چلا
میں نے وار دی ہے خیال خام پہ زندگی

کبھی کھل بھی جائے تو بند رہتی ہے روح پر
کوئی زندگی ہے تمہاری بام پہ زندگی

یہاں بند گلیاں ہی بند گلیاں ہیں ہر طرف
مجھے کھینچ لائی ہے جس مقام پہ زندگی

فرحت عباس شاہ