کریپشن کی گنگا اور؟

corruption

corruption

کریپشن کی اس دنیا میں شائد ہم لوگ نمبر لئنے کے چکر میں لگے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہر محکمے میں کریپشن کے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ضروری نہیں کہ رشوت کو ہی کریپشن کہا جائے کسی نہ کسی صورت میں کریپشن لازمی ہو گی مجھے اس وقت ہنسی آتی ہے جب ہمارے نومولوس سیاست دان عوام کو یہ نوید سناتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر راتوں رات کریپشن کے اس گند کو صاف کر دیں گے جس کی لپیٹ میں وطن عزیز باسٹھ سالوں بری طرح پھنسا ہوا ہے جب بھی کریپشن کے اس جن کو قابو کرنے کی کسی نے کوشش کی ہے اس جن نے مزید شکلیں اختیار کر کے اپنا قبضہ نہیں چھوڑا خادم اعلی میاں شہباز شریف نے بھی کریپشن کے خاتمے کی جسارت کی انھوں نے ملک میں کریپشن کو ختم کرنے کے لئے ٹریفک پولیس ختم کی اور ان کی جگہ ٹریفک وارڈن کھڑے کر دیئے یہ تجربہ کافی ھد تک ٹھیک سمجھا گیا کریپشن کے خاتمے کے لئے انھوں نے ان وارڈنز کے لئے بھاری تنخواہوں کا بوجھ بھی وطن عزیز کے کاندھوں پر رکھ دیا اوپر سے انہیں اتنے اختیارات سے بھی نوازدیا کہ ہر برا چنگا کرنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا میری باتوں سے شائد اب بھی کسی کو اختلاف ہو مگر یہ سچ ہے کہ یہ وارڈن بھی بھتہ خوری کی لت میں پھنس چکے ہیں۔

میرے خیالات آپ کی طرح تھے مگر یہ اس وقت کرچی کرچی ہو گئے جب سات اپریل بروز ہفتہ مجھے اپنی والدہ کو لئنے جو عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس آرہی تھیں راولپینڈی جانے کا اتفاق ہوا سیکورٹی پر مامور کالی وردی میں ملبوس پولیس اہلکارونے ائر پورٹ چوک میں ہمارا استقبال کرتے ہوئے ڈریئور سے کا غذات طلب کئے میں حیران رہ گیا کہ ایک کانسٹیبل اتنی دلیری سے گاڑی کے کاغذات طلب کئے مطلب تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ کانسٹیبل کسی سے کاغذات طلب کر ہی نہیں سکتا خیر ہم جب ائر پورٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ فلائٹ ہفتہ کے بجائے اتوار کی صبع آئے گی لہذا ہم گلستان قالونی میں رہائش پزیر اپنے عزیز کے ہاں جانے کا فیصلہ کیا جب ہماری گاڑی کچہری چوک سے پچھلے چوک میں پہنچی تو اشارہ بند ہونے کی وجہ سے اسے روکنا پڑا جہاں کھڑے وارڈن نے ڈرایئور کو گاڑی آگے لے آنے کا اشارہ کیا گب ڈرایئور گاڑی آگے لے گیا تو میں بھی اتر کر ان کے پاس جا کھڑا ہوااب گفتگو ملا ظحہ فرمایئے کہ وارڈن جو سب انسپیکٹر کے اعہدے کا تھا سرعام ڈرایئور سے پوچھتا ہے کہ آج کون سا دن ہے۔

ڈرائیور نے بتایا کہ آج ہفتہ ہے تو وہ صاحب بولے دو سو روپے دو یا پانچ سو روپے کا چالان کرا لو میں سوچتا رہا کہ یہ کیا ہو گیا ہے میں نے مداخلت کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ کہ اختیار کے نشے میں چور یہ وارڈن کسی کو گھاس نہیں ڈالتے انہوں نے گارٰ کا نہ صرف چالان کیا بلکہ عورتوں بچوں کو کئی گھنٹے خوار کیا ہم گلستان کالونی سے پی ائے ایف بیس آگئے جہاں ہم نے رات بسر کی اور اتوار کے روز دن تین بجے اپنے گھر کو روانہ ہوئے تو پی ائے ایف سینما کے قریب ناکہ لگا کر کھڑا وارڈن جو گاڑیوں کے کا غذات چیک کرنے میں مصروف تھا ہماری گاڑی کو بھی روک لیا میں نے اسے بتایا کہ ہماری گاڑی کا چالان ہو چکا ہے ہم نے اسے چالان کی پرچی دیکھائی تو اس نے ڈرایئور کا لائیسنس مانگا ہم نے اسے بتایا کہ وہ چالان کی مد میں جمع ہے۔

صاحب ماننے کو تیار ہی نہ تھے بلآخر انہوں نے مطلب کی بات کر ہی دی اور پوچھا کہ آج کونسا دن ہے ہم اس کی بات سمجھ گئے اور اسے بتایا کہ ہم ایک پیسہ بھی دینے والے نہیں ہیں میرے ایک عزیز جو محکمہ پولیس میں ہیں کا نہ صرف تعارف کرایا بلکہ فون پر بات کرائی تو ہماری جان بخشی ہوئی س دوران ایک گھنٹہ سے زائد ہمارے ساتھ لوگوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا میں نے یہ کہانی وہ سنائی ہے جو ہمارے ساتھ بیتی اس دوران وہ لوگ جن کی رسائی نہیں ان کے ساتھ کیا ہوا میں بتانے سے قاصر ہوں یہان میں آپ کو بتائوں کہ کوئی وارڈن بغیر کسی غلطی کے کسی گاڑی کے کاغذات نہیں مانگ سکتا ان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ روایتی پولیس کا کردار ادا کریں مگر وہ کیا کر رہے ہیں آپ نے ملاظحہ فرمایا میں نے تحریری درخواست میں ایس پی ٹریفک کو بتایا مگو ابھی تک میری اطلاع کے مطابق کوئی کاروائی نہیں ہوئی کمال تو یہ ہے کہ راولپینڈی کے کسی صحافی بھائی نے بھی ان ناسوروں پر قلم اٹھانا گوارا نہیں کیا مجھے امید ہے کہ اس کالم کی اشاعت کے بعد حکام ضرور حرکت کریں گے۔ تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
riaz.malik48@yahoo.com