کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے

Catherine Break

Catherine Break

کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے
اور اس کے بعد سرابوں کا ایک دریا ہے

ہے کب سے پردئہ آواز کو سکوتِ ہوس
سکوت پردئہ آواز کو ترستا ہے

نہ جانے کب سے اک آشوب ہے سوالوں کا
مگر سوال تو یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے

وہ جانِ خلوتِ ممکن ہے دل کے پہلو میں
اور ایک حشرِ مراد محال برپا ہے

ہے اس کا نافِ پیالہ غضب کہ مت پوچھو
کہ اس کی ایک جھلک اک بلا کا نشہ ہے

جون ایلیا