کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا

flower in rain

flower in rain

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیر حلقہ دام ہوا کیونکر ہوا

جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا

کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیونکر ہوا

ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا

دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا

حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیونکر ہوا

موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے ، میں لا دوا کیونکر ہوا

تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا

پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا ، کیونکر ہوا

میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا

علامہ محمد اقبال