کینیا : آتش زنی کے مشتبہ واقعات، 100 سے زائد اسکول نذر آتش

Kenya School

Kenya School

کینیا (جیوڈیسک) ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان واقعات کا کون ذمہ دار ہے اور وہ اسکولوں کی عمارتوں کو جلاکر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

مشرقی افریقی ملک کینیا میں آتش زنی کے مبینہ حملوں میں ایک سو بیس سے زائد اسکولوں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔

یہ واقعات ایک ایسے وقت پیش آئے جب حکومت کی طرف سے سرکاری اسکولوں کے امتحانات میں نقل کے واقعات کو روکنے کے لیے سرکاری کارروائیاں جاری ہیں۔

آتش زنی کے ان واقعات میں چند افراد زخمی بھی ہوئے ہیں تاہم کسی کے مرنے کی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے حکام اور ماہرین تعلیم کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا ہے، اگرچہ اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان حملوں میں کون ملوث ہیں اور ان کا کیا محرک ہے۔

رواں ہفتے دس مزید اسکولوں میں آتش زنی کے واقعات کی اطلاعات ملنے کے بعد اساتذہ سے متعلق ایک حکومتی کمیشن نے اسکولوں کے سربراہوں اور ان کے نائبین سے کہا کہ وہ آتش زنی کے حملوں کو روکنے کے لیے اسکولوں کے صحن میں موجود رہیں۔

تاہم اساتذہ کی یونین نے یہ کہہ کر ایساکرنے سے انکار دیا کہ ان کے اراکین سکیورٹی کے امور کے ماہر نہیں ہیں۔

حکام نے ان واقعات میں مبینہ طور پر ملوث کئی اساتذہ اور طلباء کو گرفتار بھی کیا ہے تاہم جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے ان واقعات میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔ دوسری طرف حکومت نے ان واقعات کی چھان بین کے لیے ایک آٹھ رکنی کمیٹی بھی بنا دی ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ نے جمعرات کو اپنی ایک رپورٹ میں پولیس اور وزارت تعلیم کی ایک مشترکہ خفیہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا تھا کہ آگ سے “زیادہ تر طلباء کے رہائشی کمرے متاثر ہوئے ہیں اور بظاہر یہ نہایت مربوط کارروائیاں ہیں کیونکہ ان میں کوئی زخمی نہیں ہوا ہے اور نا ہی طلباء ان سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ بات اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شاید وہ پہلے ہی سے اس بارے میں آگاہ تھے اور اسی وجہ سے وہ وہاں سے نکل گئے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان واقعات کا کون ذمہ دار ہے اور وہ اسکولوں کی عمارتوں کو جلاکر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

حالیہ کچھ عرصے سے کینیا کا تعلیمی شعبہ بحران کا شکار ہے۔ کینیا کے وزیر تعلیم فریڈ میتیانگئی نے کئی اسکولوں کا دورہ کیا اور کئی جگہوں پر انہوں نے دیکھا کہ اساتذہ بغیر اجازت کے اسکولوں سے غیر حاضر پائے گئے۔

کچھ مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ طلباء، والدین اور اساتذہ حکومت کی طرف سے اکتوبر میں ہونے والے امتحانات سے قبل ان کے پرچے افشا ہونے سے روکنے کے لیے حکومتی اقدامات پر خوش نہیں ہیں۔

گزشتہ سالوں میں کئی ایسے طلباء کو پکڑا گیا جن کے پاس امتحانات سے پہلے پرچوں کے سوالات اور جوابات کی کاپیاں برآمد ہوئیں۔

جب کہ ملک کے ایک ماہر تعلیم پروفیسر چاچانیئی چاچا کا کہنا ہے کہ طلباء اس لیے نقل میں ملوث ہوتے ہیں کیونکہ ان کے بقول ان کو مناسب طریقے سے پڑھایا نہیں جارہا ہے۔