ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

Mirza Ghalib

Mirza Ghalib

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتائو کہ وہ شوخ تندخو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو، کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادئہ گلفام مشکبو، کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو، کیا ہے

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے اے اترتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

غالب