ہمسفر کوئی بھی نہیں اب تو

humsafar koi nahi ab to

humsafar koi nahi ab to

ہمسفر کوئی بھی نہیں اب تو
چارہ گر کوئی بھی نہیں اب تو

یار کتنے تھے اچھے وقتوں میں
ہاں مگر کوئی بھی نہیں اب تو

میں نے دل کو ترے حوالے کیا
مجھ کو ڈر کوئی بھی نہیں اب تو

شہر میں تیرا چاہنے والا
تھا مگر، کوئی بھی نہیں اب تو

دل کی سب نرمیاں تمام ہوئیں
چشمِ تر کوئی بھی نہیں اب تو

زور ور لوگ باگ ہیں لیکن
دیدہ ور کوئی بھی نہیں اب تو

فرحت عباس شاہ