2015 میں پاکستانی معیشت نے اچھی کارکردگی دکھائی، اسٹیٹ بینک

State Bank

State Bank

کراچی (جیوڈیسک) اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے لیے معاشی منظر نامہ مجموعی طور پرمثبت نظرآرہاہے، مہنگائی ہدف سے کم اور مالیاتی کھاتہ بہتر رہنے کی توقع ہے، مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلیے ٹیکس وصولیوں میں 19.9فیصد اضافہ نموکے ہدف کی وجہ سے 3104ارب روپے ٹیکس وصولیاں دشوار ہیں، مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 5.5فیصد کا ہدف حاصل کرنے کے لیے زراعت، صنعت وخدمات تینوں شعبوں میں بہتری ناگزیر ہے۔

بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے زراعت کے شعبے کو پہنچنے والا نقصان جی ڈی پی کیلیے خطرہ ہے۔ مالی سال2014-15میں بیشتر اہم معاشی اہداف حاصل نہ ہوسکے، گزشتہ چند سال کے مقابلے میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2014-15کیلیے مقررہ 5.1فیصد کے ہدف کے مقابلے میں4.2 فیصد تک محدود رہی، زراعت کی شرح نمو3.3فیصد کے بجائے 2.9فیصد، صنعتی ترقی 6.8فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 3.6فیصد، خدمات کے شعبے کی نمو5.2فیصد کے بجائے5فیصد رہی۔

انٹرنیشنل مارکیٹ میں خام تیل اورکموڈٹیز کی قیمتوں میںکمی کی وجہ سے افراط زر کی شرح8فیصد کے اندازے کے بجائے4.5فیصد تک محدود رہی۔ حکومت مالی سال 2014-15میں بھی مجموعی قرضوں کو جی ڈی پی کے 60 فیصد تک محدودکرنے کے ایکٹ کی پابندی نہ کرسکی۔18ویں ترمیم اور7ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت قابل تقسیم پول جاری کرنے کے بعد وفاق کے وسائل محدودہوگئے ہیں جوصرف سودی ادائیگیاں اوردفاعی اخراجات پورے کرسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2014-15 میں مجموعی سرکاری قرضے جی ڈی پی کے 64.8فیصد رہے۔
جاری کھاتوںکا خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصداور مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 5.3فیصد رہا۔ مالی سال 2014-15کے دوران بجلی کی پیداوار میں صرف1.6فیصد اضافہ ہوا جو بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کیلیے ناکافی ہے۔ نجی شعبے کے قرضے371 ارب روپے کے مقابلے میں208.7ارب روپے تک محدود رہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق بیرون ملک مقیم کارکنوں کی ترسیلات زر میں بلند اضافے اور تیل کی عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باعث بیرونی کھاتے کی صورت حال بہتر ہو گئی۔

اس کے نتیجے میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جون2015 تک تاریخ کی بلند ترین سطح18.7 ارب ڈالر (جوتقریباً 5 مہینوں تک ملک کے درآمدی بل کی مالکاری کیلیے کافی ہے) تک پہنچ گئے بلکہ سال کے دوران شرح مبادلہ بھی مستحکم رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلیے حکومت نے کمرشل بینکوں پر بہت انحصار کیا تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ حکومت نے قرضے کی خاصی بڑی رقم اسٹیٹ بینک کو واپس کی۔ اجناس کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے جاری سرمائے کا استعمال کم ہوگیا۔

کچھ تلافی طویل مدت مالکاری میںاضافے کی بنا پر ہوئی جس سے پلانٹ اور مشینری میں نئی سرمایہ کاری کی نشاندہی ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنا سرکاری قرضہ بلحاظ جی ڈی پی کا تناسب معمولی سا کم کر سکا جس کی اہم وجہ بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہونے والی ری ویلیوایشن کے فوائد تھے۔

قرض کے بوجھ میں کمی اس حقیقت کے باوجود ہوئی کہ پاکستان نے نومبر 2014 میں5 سالہ صکوک بانڈ کامیابی سے جاری کیے جس سے حکومت 500 ملین ڈالرکے ابتدائی ہدف کے مقابلے میں ایک ارب ڈالر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئی۔