اُسی کا نام لیا جو غزل کہی میں نے

tanha

tanha

اُسی کا نام لیا جو غزل کہی میں نے
تمام عمر نبھائی ہے دوستی میں نے

چراغ ہوں میں اگر بُجھ گیا تو کیا غم
کہ جتنی دیر جلا روشنی تو کی میں نے

میں شیر دیکھ کے پنجرے میں خوش نہیں ہوتا
کہاں گنوا دی ہے بچپن کی سادگی میں نے

اب اتنا شور ہے کہ کچھ بھی سمجھ نہیں آتا
وہ دن بھی تھے کہ ستاروں سے بات کی میں نے

میں اس سے روز گزرتا ہوں اجنبی کی طرح
خود اپنے گھر میں بنا لی ہے اِک گلی میں نے

افتخار نسیم