ایدھی’ قندیل’ ترکی اور کشمیر

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر : نسیم الحق زاہدی
عبدالستار ایدھی بڑی شان اور فوجی اعزاز کے ساتھ اپنے سفر حقیقی پر جا چکے ہیں ایدھی صاحب بہت اچھے اور درد دل رکھنے والے انسان تھے انہوں نے خلق خدا کی بڑی خدمت کی اللہ تعالیٰ ان کا اگلا سفر آسان فرمائیں آمین ایدھی صاحب کی طبی وفات پر ہر کالم نگار نے اپنی قلم کے جو ہر دیکھائے انکی خدمات کو سراہا خراج تحسین پیش کیا وہ اس کے حق دار بھی تھے راقم الحروف کچھ ذاتی مصروفیات کی بنا پر فوری تو کچھ نہ لکھ سکا اور مناسب بھی نہیں تھا کیونکہ اس وقت بہت سے پڑھے لکھے احباب کچھ زیادہ ہی قصیدہ گوئی پر اترے ہوئے تھے کسی نے ایدھی صاحب کو محسن کائنات لکھا تو کسی نے قائد انسانیت جیسے القاب سے نوازہ جو کہ سراسر غلط اور گناہ ہے کیونکہ یہ ساری صفات صرف ایک ہستی کے لیے مخصوص ہیں اور وہ ہیں جناب محمدۖ ان کے بعد اس کائنات میں کوئی ایسی ہستی ہو ہی نہیں سکتی جو ایسی صفات کی حامل ہو۔

سوشل میڈیا پر ایسی فضول اور شرکیہ پوسٹیں شیئر کی گئی جنہیں دیکھ کر دکھ اور افسوس ہواب بندہ کسی کو کیا سمجھائے کہ جس شخص کو آپ لو گوں نے اس کی زندگی میں بھکاری کہا آج اس کی موت پر اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیںانکی پوجا کرنے کی بجائے کیوں ناان جیسا کام کیا جائے؟قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے کافی عرصہ بعد غیرت کھا کر قتل کر دیاحیرت کی بات تو یہ ہے کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے قندیل بلوچ ایک ماڈل تھی اور ماڈل کا کام جسم کی نمائش کے سواء کیا ہوتا ہے؟اور وہ کافی عرصہ سے ماڈلنگ کر رہی تھی نہ جانے ہمارے ہاں غیرت اور پولیس بڑی دیر سے کیوں آتی ہے۔

ٹی وی پر قتل کا اعتراف جرم کرنے والے قندیل بلوچ کے بھائی کو دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ بھائی نے بہن سے کہا ہوگا کہ کہ مفتی عبدالقوی سے ملاقات کے بعد آپ کافی مشہور بھی ہوگئی ہیں اورپیسہ پہلے سے زیادہ مہربان ہوگیا ہے تو خرچے میں اضافہ کروانکار پر غیرت نے آگھیرابرے کام کا انجام برا ہی ہوتا ہے قندیل نے جس راستے کا انتخاب کیا اس کا آغار بظاہر خوشگوار ہوگا مگر انجام جہنم کی ہمیشگی کے سواء کچھ نہیں اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے اس کے گھر کی چار دیواری کو محفوظ قلعہ قرار دیا ہے خواتین کا ایک سوال ہوتا ہے کہ جب باپ’بھائی یا شوہر کچھ کھانے کو نہ دیں تو عورت کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے بیشک موجودہ معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ مردوں نے عورت کو ذریعہ معاش بنا لیا ہوا ہے مگر عورت مجبوری میں نکلے دوسروں کو نظارہ مت کروائے عریانی گناہ کو جنم دیتی ہے اور اب نئی نسل کو یہ کون سمجھائے کہ عریانی کبھی ثقافت نہیں ہوتی مولانا عبدالقوی نے قندیل کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا بلکہ بیان دیا کہ ان کی عزت کو اچھالا گیا ہے مفتی صاحب عزت کی باتیں اب جانے دیں۔

Qandeel Baloch

Qandeel Baloch

اس بار عید کے چاند کو نکالنے کے لیے مفتیان کی حراکات کو دیکھ کر شرمندگی ہوئی پر کیا کہا جا سکتا ہے اگر کوئی بات سچ کہہ دی تو ہو سکتا ہے کفر کا کوئی فتویٰ ہی جاری نہ ہوجائے؟ایک مشہور اشتہاری مولانا کے ساتھ ایک بھوک ہڑتال میں کچھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا عوام کا بھوک سے برا حال ہورہا تھا کلیجہ منہ کو آرہا تھا اور مولانا ایک کمرے میں نماز کے بہانے مرغ نوش فرما رہے تھے ہم بھی شریک جرم تھے مولانا جب پنڈال میں واپس تشریف لائے تو فرمانے لگے کہ صبر کرو اللہ کی قسم میں نے دو دن سے روٹی کو ہاتھ نہیں لگایاسرگوشی سے کان میں عرض کیا وہ مرغ ؟تو مسکراکر کہنے لگے بات روٹی کی ہورہی ہے رجب طیب اردگان جیسے لیڈر قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتے ہیں حدیث نبویۖ ہے کہ جیسی قوم ہوتی ہے ان پر ویسا ہی حکمران مسلط کر دیا جاتا ہے ترک قوم تبدیلی چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں طیب اردگان جیسا حکمران عطا کیا اور پھر حاکم نے بھی حق حاکمیت ادا کیا عہد ابوبکر صدیق اور عہد عمر کی یاد تازہ کر دی تو قوم نے بھی ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اپنی جانیں قربان کر کے ثابت کر دیا کہ اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جس خود نہ ہو احساس اپنے بدلنے کا فیس بک ایک تصویر بڑی تیزی سے شیئرکی جا رہی جس میں جاپان کا وزیر بجلی عوام کے سامنے شرمندگی سے جھکا ہوا ہے۔

کچھ سیکنڈ کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے چند دن پہلے کی بات ہے کہ وولٹیج کم آرہے تھے جو پہلے ہی کبھی پورے نہیں ہوتے تو میں نے واپڈا آفس فون کیا کوئی دوگھنٹے تک پی ٹی سی ایل نمبر مسلسل مصروف رہا تھک ہا ر کر ایس ڈی اور صاحب کو کال کی تو نمبر مصروف تھا ایکسین صاحب کا نمبر بھی مصروف تھا خوار ہو کر خود آفس گیا تو دیکھنے والا منظر تھا ملازمین ایک کرسی پر خود بیٹھے تھے تو دوسری کرسی پرٹانگیں رکھی ہوئی تھیںاور چائے اور جلیبیوں کے مزے لیے جا رہے تھے ایک صاحب فون پر قہقہائے لگا رہے تھے عرض کی جناب آپ فون نہیں سن رہے تھے یقین جانیے ایسا جھوٹ کہ جھوٹ کو بھی شرم آجائے کہ فون خراب ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ہاں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لوڈشیڈنگ کے باوجود اتنا بل آتا ہے اور اگر لوڈشیڈنگ نہ ہو تو غریب بجلی کا بل ہی نہیں دے سکتا میں نے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی حقیقت کو پڑھا ہے اور اس وقت حیرت زدہ ہو کر رہ گیا۔

جب یہ علم ہوا کہ انکی ترقیوں کا راز اسلامی قوانین کا مرہون منت ہے وہاں ٹیلی فون کلچر نہیں وہاں رشوت اور سفارش کاتصور تک موجودنہیںوہاں پر ہر طاقت ور ہر قسم کی سزاء سے مستثنیٰ نہیں وہاں کا قانون سب کے لیے برابر ہے رجب طیب اردگان نے یہ بات اپنے کردار سے ثابت کی ہے کہ ایک حکمران کا کام عیاشی کی زندگی گزارانہ نہیں بلکہ عوام کے مصائب کو حل کرنا ہوتا ہے مگر یہاں معاملہ الٹ ہے میں نظام کے حوالے سے جب بھی کسی خلیفةالمسلمین کایا کسی اسلامی سالار کا ذکر کرتا ہوں تو میرے چند قصیدہ گو کالم نگاروں کو گراںگزرتا ہے باقاعدہ رائٹ پیپل کا لقب دیا جا چکا ہے جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہا جاتا کہ اب وہ دور نہیں اب دنیا ترقی کر چکی ہے اب سیکولرازم کی ضرورت ہے۔

Burhan Wani

Burhan Wani

اسلام قیود کا مہذب ہے(نعوذباللہ)چند دن پہلے ایک قومی نظریاتی اخبار کے انگلش اخبار میں ماروی سرمد کا کالم پڑنے کا اتفاق ہواماروی سرمد نے مجاہد اسلام برہان وانی کو دہشت گرد لکھا دکھ اس بات کا نہیں کہ اس نے برہان کو دہشت گرد لکھا افسوس اس بات کا ہے کہ اسے پاکستانی اخبار نے شائع کیاکشمیری پاکستان پر قربان ہو ہے ہیں اور……..اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کشمیر میں مسلمانوں کی مائوں بہنوں کی عزتیں لوٹنے والے غازی اور مجاہد ہیں؟ماروی سرمد عورت کے روپ میں غلاظت کا ڈھیر ہے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے والی راء کی ایجنٹ ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے صاحب علم لوگ اس کی کالی کرتوں سے واقف ہونے کے باوجوداس کو اپنے پروگراموں میں کیوں بلاتے ہیں۔

برہان وانی کی شہادت نے کشمیری قوم کو حیات بخشی ہے اور پاکستان کے بے حس حکمرانوں کو یہ بتایا ہے کہ کشمیر ہارٹ ایشو ہے اور تمہارا فرض بنتا ہے کہ تم کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھائو کیوں کہ کشمیریوں نے ہمیشہ ”کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگایا ہے”اور اگر تم نے آواز نہ اٹھائی تو یاد رکھنا ہمارا دشمن پاکستان کا بھی ازلی دشمن ہے یہ حقیقت ہے کہ جس دن ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کے مسلئے پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔ اسی دن بھارت دنیا کے نقشے سے غائب ہوگااور یہ طے ہے کہ بھارت کا انجام قریب ہے دعا یہ ہے کہ کاش ہم یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیںمگر اس کے لیے حکمرانوں کو طیب اردگان کے نقش قدم پر چلنا ہوگااور کیا ایسا ممکن ہے……………؟

Naseem Ul Haq Zahidi

Naseem Ul Haq Zahidi

تحریر : نسیم الحق زاہدی