ابوالحسن علی بن حسین بن علی المسعودی 895-957

Mas'oodi

Mas’oodi

تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
امام المورخین ،علی بن حسین مسعود یچوتھی صدی ہجری کے عالمی شہرت یافتہ جغرافیہ نویس ، عظیم ترین مئورخ ،متبحر عالم اور سیاح زمانہ تھے۔895ء میں بغداد میں پیدا ہوئے اور وہیں پروان چڑھے ۔شافعیہ مسلک کے پیروکار اور جلیل القدر صحابی رسول ۖ،حضرت عبداللہ بن مسعود کے اخلاف میں سے تھے۔ آپ کے والد حسین بن علی، عباسی حکومت کے دور میں کوفہ سے ہجرت کر کے بغداد متوطن ہوئے ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی جن کا شمار بغداد کے نامور علماء وفضلاء میں ہوتا تھا ۔اس کے بعد مختلف درسگاہوں کا رخ کیا اور اربابِ علم سے فیضیاب ہوئے ۔فقہ، حدیث، قانون، حکمت ،اخلاق اور دیگر موضوعات پہ مکمل عبور اور مہارت حاصل ہوتی گئی ۔ معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ وسعت ذوق و شوق بھی پروان چڑھتی رہی۔

مروجہ اکتسابی موضوعات پہ قناعت کی بجائے آپ نے ایک قدم اور آگے بڑھایااور تاریخ پہ توجہ دی۔متجسس ذہن اور مہم جویانہ فطرت کے باعث آپ کو اس فن میں اختصاص کے اچھے مواقع ملے۔ زمانہء طالب علمی ہی میں آپ نے مختلف ممالک کی سیاحت اور مختلف شہروں ،خطوں ،اقوام اوران کے طرز معاشرت کے مطالعہ اور عرب وعجم ، اسلامی وغیر اسلامی ممالک کی تہذیبی ،ثقافتی اور سماجی خصوصیات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا ۔

عالمی سیاحت
اس مطالعاتی ذہن کے ساتھ ساتھ بچپن ہی سے سیروسیاحت کا طبعی میلان رکھنے کے باعث تجارتی قافلوں کے ہمراہ بلاد ِعالم کی سیر کی اور احوال رقم کیے ۔اس عالمی سیاحت کی ابتدا ملتان سے ہوئی۔ ملتان سے آپ سندھ (منصورہ،دیبل)پہنچے اورتین سا ل تک سندھ کے اطراف وجوانب کی سیر کی ۔وہاں کے باشندوں کے علاوہ ان کی تاریخ وتہذیب کے عناصر ترکیبی معلوم کیے ۔طبعی اور موسمی خواص کااندازہ لگایا۔سندھ سے آپ بلوچستان ،کرمان کے راستے خراسان، فارس(ایران )پہنچے ۔ایران سے واپس ہندوستان تشریف لائے اور کمبا،سیمور سے ہوتے جزائر سراندیپ (سری لنکا)کا رخ کیا ۔ان ممالک میں بدھ مت کے پیروکاروں کی تہذیب کا جائزہ لیا اور وہاں سے بحری سفر کرتے مڈغاسکر اور پھر عمان پہنچے۔

Mas'oodi

Mas’oodi

ملائیشیا میں کچھ عرصہ قیام کیا جہاں سے بحری راستہ سے ہوتے چین پہنچے ۔اس دور کا چین اس قدر وسیع تھا کہ کہ عام مسافر کا وہاں پہنچنا دشوار اور ناممکن سمجھا جاتا تھا ۔اس کے باوجود آپ نے چین جانے کی کاوش جاری رکھی اور ایک قافلہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے ان کی معیت ونگرانی قبول کی ۔موسمی شدائد وتغیرات سے نبرد آزما ہوتے ا س قافلہ کے ہمراہ چین پہنچے ۔چین میں آپ کو زیادہ گھومنے کے مواقع میسر نہ آئے مگر سرحدی شہروں سے آپ نے اہل چین کی تہذیبی وسماجی خصوصیات معلوم کیں ۔ان کے رہن سہن اور بود وباش کا اندازہ لگایااور جب چین کے دور دراز علاقوں کی سیاحت محال دیکھی توواپس لوٹ آئے ۔

اس تمام سفر میںآپ نے معلومات حاصل کر کے قلمبند کیں۔بحر احمر ،بحر قلزم کے مشرقی سواحل سے گزرتے جنوب میں بحر قزوین دیکھا۔طویل عرصہ اطراف واکناف ِعالم کے دور ونزدیک گوشوں کی سیاحت کی۔اس سفر کی جانگداز تھکن کے بعد کچھ روز بغداد میں آرام کیا اور پھر اسلامی ممالک کی سیاحت پہ کمر بستہ ہوئے ۔اس مقام پہ آپ عمیق بین اور وسعت نظر کے حامل ہو چکے تھے اور آپ کے پاس ایسی کتب اور معلومات کا وسیع ذخیرہ ہو چکا تھا جن سے آپ اپنی تصانیف میں استفادہ کر سکتے تھے ۔اس وسیع ذخیرے کے باوجود آپ کی علمی روح بے چین ومضطرب تھی اور آپ شام ،مصر،انطاکیہ (ترکی )اور اسی قسم کے دوسرے شہروں کی مہم پہ روانہ ہونا چاہتے تھے ۔جب اس سفر کے لیے معقول زادِ راہ جمع ہو گیا تو آپ بغداد سے روانہ ہوئے اور ان ممالک کارخ کیا ۔

دوران سفر آپ نے اس لامحدود سیاحت اور سیر وسفر کے حالات وواقعات قلمبند کیے ۔ آپ آرمینیا، روس، چین،آزربائیجان ،رے ،بلقان،عراق اور زنجباربھی گئے ۔ 314ھ،926ء میں فلسطین کا شہر طبریہ دیکھا۔وہاں سے انطاکیہ (ترکی )کے علاوہ شام کے شمالی حصوں کی برسوں سیر کی ۔

تصنیف وتالیف
332ھ،943ء میں بصرہ پہنچ کر تصنیف وتالیف اور تدوین وترتیب کا آغاز کیا ۔زندگی کے آخری دس سال مصر وشام کے درمیان منتقل ہوتے گزارے ۔اسی دوران آپ نے اپنی معرکة الآرا کتاب ”اخبار الزمان ”تیس جلدوں میں ترتیب دی ۔آپ کی رحلت کے بعد آپ کا عظیم ترین علمی ذخیرہ بکھر گیا اور اس کا انتہائی قلیل حصہ اس دور تک پہنچاہے ۔آپ کی تصانیف وتالیفات کی اکثریت نایاب ہے ۔

تالیفات مسعودی
آپ کے علمی کمالات اور مختلف علوم وفنون پہ کامل دسترس ،تاریخ نویسی اور جملہ علوم پر بے شمار ضغیم تصانیف وتالیفات کی بنا پر آپ ” جَامِعُ الْعُلُوْم” کہلاتے ہیں۔آپ کے علمی کارناموں کی فہرست طویل ہے ۔بلاد عالم ،خصوصاً ایشیا ومشرقی افریقہ کی مفید ترین سیاحت اور اس سلسلہ میںآپ کے آثار آپ کی قدر ومنزلت کے عکاس ہیں۔ تاریخ نویسی میں آپ مقام یگانہ رکھتے ہیں اور اس میدان میں آپ کا کوئی مدمقابل نہیں ۔ آپ نے سائنسی جغرافیہ سے ملا کر دامن ِتاریخ کو اس قدر وسیع اور کشادہ کر دیا کہ اس کی حیثیت ایک انسا ئیکلو پیڈیا کی ہو گئی ۔
ابتدائے آفرینش سے نصف چوتھی صدی ہجری تک کی عالمی تاریخ ،جغرافیہ اور دیگر متعدد علوم وفنون پہ مسعودی قلمکاری نے آنے والی نسلوں پہ احسان عظیم کیا ہے ۔ آپ کی کتب عربی زبان کی مقتدر تالیفات میں سے ہیںاور حضرت ِمسعودی کا عدیم النظیر کارنامہ ہیں۔ ”مُرُوْجُ الْذَّہَبْ” کے مقدمہ میں آپ مختلف موضوعات پہ لکھی گئی 23کتب کا تذکرہ کرتے ہیں ۔چند کتب کے عنوانات اس طرح ہیں۔

Mas'oodi

Mas’oodi

١۔ اخبار الزمان وحوادث عالم مسعودی کی یہ نایاب ترین کتاب تیس جلدوں میں تھی ۔دوران سفر حاصل کی گئی معلومات نہایت شرح وبسط کے ساتھ آپ نے اس کتاب میں سمو دیں ۔یہ کتاب اپنے معلوماتی موضوعات اور حیرتناک تجربات کی بنا پر نہایت اہم تھی ۔اخبار الزمان کے مندرجات مختصر کر کے اور کچھ رہ جانے والی باتیں شامل کر کے آپ نے ایک دوسری کتاب ”الاوسط ” ترتیب دی۔ کتاب لاجواب ” اخبار الزمان” امتداد ِحالات سے پردہء گمنامی میں چلی گئی اور اس کی تیس جلدوں میں سے صرف ایک جلد باقی رہ گئی ۔

اسی کتاب کے اقتباسات سے جمادی الاول 332ھ قریباً947ء میںآپ نے مشہور عالم کتاب ” مُرُوْجُ الْذَّہَبْ وَمَعَادِنُ الْجَوَاھِرْ ” ترتیب دی ور اس پر 345ھ،956ء میں نظر ثانی کی۔د س سال کی کاوش نے اس کی اہمیت کو دوگنا کر دیا ۔اس کتاب میں انبیائے کرام کے حالات وکوائف سے لے کر اپنے دور (چوتھی صدی ہجری)تک کے حالات کا تفصیل سے ذکر کیا ۔قبل از اسلام، قدیم دنیا کی ممتا ز اور مہذب اقوام کے تذکرے کے ساتھ سرکار دوعالم کی سیرت مبارکہ ،غزوات اور آپ کی اہلبیت اطہار ،عترت وزریت طیبہ،سادات عظام کا بھی مفصل ذکر کیا ہے ۔

یہ کتاب تاریخ کے ساتھ جغرا فیہ،فلکیات،قانون،حکمت اورعجائباتِ عالم پر بھی روشنی ڈالتی ہے ۔اس کتاب میں جہاں مختلف ممالک کے عجائب الخلقت اور گرانقدر جانوروں کا ذکر ہے وہیں علاقائی موضوعات، پودوں، جڑی بوٹیوں،پتھروںاور مشک وغیرہ کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ 1861ء سے لے کر1871ء تک پروفیسر ماربیئر ڈی مینارڈ اور پروفیسر کارٹیل کی دس سال کی تحقیق وکاوش کے بعدمروج الذہب کا نسخہ فرانس میں نو جلدوں میں شائع ہوا۔یہ کتاب 1948ء میں محمد محی الدین عبدالحمید کی تحقیق وترتیب کے بعد چار جلدوں میں قاہرہ ،مصرسے شائع ہوئی ۔عربی زبان کے علاوہ اسے یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔

ابن اثیر کی تاریخ کامل کی طرز پہ اس کتاب کی 1303ھ میں دس جلدوں میں اشاعت ہوئی ۔احمد المقری نے 1883ء میںبولاق سے ایک جلد شائع کر کے ” نَفْخُ الْطَّیَّبْ” کا نام دیا۔ مسعودی کی تحریرکردہ تاریخ دس جلدوں میں مرتب ہوئی ۔اٹھارویں صدی عیسوی میں ان دس جلدوں میں سے بھی صرف ایک جلد اٹالین علم پرور فینیا کے کتب خانہ سے دستیاب ہوئی جسے ”خَزِیْنَةُالْعُلُوْم” قرار دیا گیا ہے ۔

Mas'oodi

Mas’oodi

٢۔ القضا والتجارب دوران سیاحت مشاہدات وتجربات پہ مشتمل ہے ۔
٣۔ ذخائر العلوم وما کان فی سالف الدھور علمی ذخائر اور زمانہء قدیم کے حالات وواقعات پر مشتمل ہے ۔
٤۔ الرسائل والسنذکار لما مر فی سالف الاعصار قدیم زمانہ کے حالات وکیفیات سے متعلق ہے ۔
٥۔ التاریخ فی اخبار الامم من العرب والعجم تاریخ عالم کی یہ مئوقر کتاب اپنے موضوعات ومباحث کے لحاظ سے بے مثل ہے اور عجائبات عالم میں شمار کی جاتی ہے ۔
٦۔ الخزائن الملک وسر العالمین دنیا بھر کے فطری خزائن اور اسرارکائنات پہ نادر کتاب ہے ۔
٧۔ المقالات فی اصول الدیانات دیانات پہ مبنی اصولوں پہ لکھے جانے والے مقالات اس کتاب میں درج ہیں۔
٨۔ التنبیہ والاشراف ڈی جویج نے یہ کتاب لیڈن سے شائع کرائی پھر 1894ء میں اس کا فرانسیسی ترجمہ
کیرا ڈیون نے 1894ء میں شائع کیا۔

٩۔ الاستبصار فی الامامة امامت کے موضوع پر لکھی گئی ۔
١٠۔ اخبار الخوارج خوارج کے حالات وواقعات۔
١١۔ البیان فی اسماء الائمة الامانہ عن اصول الدیانہ ،المسائل والعلل فی المذاہب والملل،سر الحیاة اس کتاب میں جناب مسعودی نے ادیان و مذ ا ہب ، اصول دیانت کے لحاظ سے امانت ، سیرت ائمہ اور اسرار حیات پر علم النفس کے تحت گفتگو کی ہے اور اس مشکل موضوع کے ساتھ بھی بطریق احسن انصاف کیا ہے ۔

عرب کاہیروڈوٹس
علمائے تاریخ ،جناب ِمسعودی کو اَبُوْالْتّاریْخ قرار دیتے ہیں۔حوادث ِعالم کے موضوعات پر پانچ سو سال قبل مسیح کے یونانی دانشوروں کے نتائج افکار سے مسعودی کے نتائج افکار میں کہیں زیادہ وسعت ہے جوبہ لحاظ ِزمانہ947ء تک محیط ہیں۔تاریخ انسانی پر مسعودی کے شعوری اضافے کہیں اور دستیاب نہیں ۔ان کے موضوعاتِ تاریخ کا تنوع ، عالم اسلام ویورپ میں ان کے قارئین کے لیے فوق العجائب و حیرت انگیز ہے ۔اسی باعث فرانس کے معروف دانشورفان کریمرنے مسعودی کو ” عرب کا ہیروڈوٹس ” قرار دیا۔

امام الکتاب والباحثین
معروف مئورخ ابن خلدو ن نے مسعودی کی کتاب” مروج الذہب ومعادن الجواہر ”کے بیشتر مضامین سے استفادہ کیا ۔وہ آپ کو امام الکتاب والباحثین قرار دیتے ہیں ۔ابن خلدون کی پوری تاریخ اسی زاویہء خیال اور نقطہء نظر کی وضاحت کرتی ہے ۔اسکالیجر ،علم التاریخ میں عظمت ِمسعودی کا عتراف کرتے لکھتے ہیں ، ”تاریخ نگاری میں ان کے نظریات حرف بہ حرف مستند اور صحیح ہیں ۔عام تفصیلات میں بھی ان کے خلوص سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،وہ سراپا خلو ص تھے اور ہر حال میں مخلص تھے ”۔

Mas'oodi

Mas’oodi

افکار مسعودی اور ممالک غرب
مغربی ممالک میںمروج الذہب کی نقول اور منتخب حصے شائع ہونے سے مسعودی کی شہرت وسیع پیمانے پر پھیل گئی ۔لوئیس سپرینگر نے کچھ اجزاء کے تراجم لندن سے 1851ء میں انگریزی زبان میں شائع کیے ۔سپرینگر نے مسعودی کے سیر وسفر ،مشاہدات وتجربات ،کائناتی علوم کے سلسلہ میں وسیع مطالعہ اور تاریخی نظریات پر روشنی ڈال کے عرب کے سائنس اور دیگر علوم میں وسیع تجربے،گہرے مشاہدے ، علمی کارناموں اور ہمہ جہت علمی تحقیقات کو بہت سراہا۔فرانس کی ایشین سوسائیٹی نے مروج الذہب کی دس جلدوں پر مکمل تحقیق کے بعد جن کے کچھ حصے اسپرینگر نے انگریزی میں شائع کرائے تھے ، چار جلدوں میں مدون کر کے فرانسیسی زبان میں پیرس سے طبع اور شائع کرائے ۔

مروج الذہب کا واحد مخطوطہ
مروج الذہب کا مخطوطہ دو جلدوں میںقسطنطنیہ کے کتب خانے سے ملا ۔پہلی جلد 473صفحات اور دوسری 359صفحات پہ مشتمل تھی ۔یہ دونوں جلدیں مختلف کاتبوں کے ہاتھوں سے تحریرکی گئیں تھیں ۔دوسری جلد افریقی خطاط محمد بن احمد البندری نے لکھی ۔یہ مخطوطہ قسطنطنیہ سے پیرس کے شاہی کتب خانہ میں منتقل کیا گیا اور ایک جلد میںمرتب کر کے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا گیا ۔

وصال
قیام مصر کے دوران مسعودی نے اپنی زندگی کی آخری کتاب ” التنبیہ والاشراف” مرتب کی ۔کتاب مکمل ہو جانے کے بعد 957ئ،345ھ میں مصر کے علاقہ اَلْفُسْطَاطْ ،قدیم قاہرہ میںواصل بحق ہوئے اور وہیں سپرد لحد کیے گئے ۔

تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
ریکٹروالعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ