حادثے سے بڑا سانحہ

Tragedy Shahbaz Qalandar

Tragedy Shahbaz Qalandar

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یقین کیجئے قیامت تو وہ تھی ہی جب سخی شہباز قلندر کے دربار پر کوئی بد بخت آن پھٹا اور اور بیسیوں لوگ لقمہ ء اجل بن گئے۔لیکن سچ پوچھئے اسے تو پوری قوم نے یہ کہہ کر برداشت کر لیا تھا کہ زمینی خدائوں نے پاکستان کے نصیبوں میں جو سیاہ بختی لکھی تھی اور ایک سازش کے تحت پاکستان کے سر سے پگڑی اتارنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

کسی کو اسلامی پاکستان بھاتا ہی نہیں تھا اوپر سے اس نے اپنے سر پر ایٹمی ملک ہونے کی پگڑی باندھ لی۔دشمن کے پیٹ میں مروڑ سا اٹھ گیا وہ پاکستان جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا چودھری پاکستان تھا اسے بے عزت و بے آبرو کرنے کے لئے دنیا بھر کے تگڑے اٹھ کھڑے ہوئے مگر وہ جیتا رہا اپنے کپڑے جھاڑ کر اٹھ جاتا تھا اور ایک نئی بھڑک لگا کر دشمن کی صفوں کو چیر کے رکھ دیتا تھا یہی پاکستان انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔جس قوم نے ١٩٧١ کا سانحہ اور اے پی ایس جیسا صدمہ برداشت کر لیا اور اور وہ اپنے سفر پر چلتی رہی اسے کوئی نہ مار سکا لیکن سہون شریف کے شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی دیکھ کر پاکستان کرچی کرچی ہے۔اس پاکستان کو میں روتا دیکھ رہا ہوں ایسے میں ایک عجیب سی منطق پیش کر دی گئی کہ چیٹھڑے آدھ کلو میٹر دور جا گرے۔یہ اس سے بڑی زیادتی تھی۔

قارئین!دکھ ایسا ہے کہ لکھا نہیں جا رہا لیکن دکھ ایسا ہے کہ آپ کے کندھوں کی ضرورت تھی تو لکھنے بیٹھ گیا چہرے کی گرد پونچھنے والا کوئی تو ہو لمبی مسافتوں سے جو گھر جائے آدمی (مجاہد سیدجدہ)
قومی بے حسی دیکھئے کہ جہاں سو لاشیں اٹھیں وہاں ان کے دکھوں میں شریک ہونے کی بجائے ہر کوئی وہاں طبی سہولتوں کے فقدان کی بات کر رہا ہے۔اس میدان میں ہم سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں کیا لاہور اور پشاور کے ہسپتالوں میں سب ٹھیک ہے۔ہر گز نہیں کے پی کے میں تو وہ لوگ پھر بھی اچھے ہیں کہ اچھائی کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔لیکن پنجاب میں لاہور راولپنڈی کے ہسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے میں نے ذاتی تجربہ قرطاس پر بکھیرا تھا بے نظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی کی حالت زار لکھی تھی جی تو چاہتا تھا کہ مرثیہ ء انیس لکھوں اور قوم کو بتائوں کہ راجن پور ڈیرہ غازی خان کو چھوڑیں راولپنڈی کے ہسپتالوں کی حالت کتنی خراب ہے۔جناب خورشید شاہ صاحب کو کون سی آفت آن پڑی تھی کہ وہ بے وقت کی راگنی الاپنا شروع ہو گئے ۔سیدھی سادھی سی بات تھی کہ اس ہسپتال کی انتظامیہ کے اعلی عہدے دار شہر کے ڈی سی پولیس کے سربراہ کو برطرف کر دیا جاتا قوم سے معافی مانگی جاتی اور شہداء کی باقیات کو عزت سے دفن کر دیا جاتا تو یہ شور تو نہ مچتا۔ کل مسجد میں جنازے سے پہلے مولان انے بڑی خوبصورت بات کی کہ مردہ کے حقوق بھی ہیں لوگ مرنے کے بعد مردے کے جسم کو پاک کرنے کے لئے اوزار استعمال کرتے ہیں یہ سرا سر زیادتی ہے اسے وضو کرا کے کفناکے بڑے آرام سے جنازہ گاہ تک لائیں نماز پڑھیں اور پیار سے دفن کر دیں۔

 Shahbaz Qalandar Attack

Shahbaz Qalandar Attack

ہم ایسا ہی کرتے ہیں عورتیں ہوں تو قبر کو ڈھانپ کر پردے میں کر کے دفن کیا جاتا ہے۔اسلام میں مردے کو جلایا نہیں جاتا سمندر کے حوالے نہیں کیا جاتا۔مردے کے حقوق ہوتے ہیں ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سیہون شریف کے شہیدوں کی تذلیل کی گئی۔ان کی باقیات کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا جہاں کتے بھنبھوڑتے رہے۔یہاں ہم مات کھا گئے یہاں ہم نے اپنی اسلامی قدروں کو پامال کیا اور یہیں ہم اپنی نظروں سے گر گئے۔

ہماری آنکھوں نے لبنان کی خانہ جنگی دیکھی صابرہ اور شتیلہ کے خونیں واقعات ہوئے کشمیر میں شہادتیں ہوئیں سری لنکا ہمارے سامنے خانہ جنگی کا شکار رہا۔عراق شام صومالیہ ہر جگہ خون ہی خون ہے۔کچھ ممالک اس خونیں دور سے سلامتی کے دور میں داخل ہو گئے ہیں عراق شام برما کشمیر بھی کسی دن اس آفت سے نکل آئیں گے اور ہم پاکستانی بھی اس مشکل کے دریا کو پار کر لیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم انسانی قدروں اور رویوں کے ساتھ اسے پار کریں گے یا ایک بے حس قوم کی طرح اس قسم کی ہمالائی غلطیوں کا ارتکاب کر کے اس پار ہوں گے؟یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب جناب زرداری اپنے قدم سندھ کی دھرتی پر رکھ چکے تھے موصوف کے سبز قدم کیا آئے ایک سانحہ رونما ہو گیا آج آئے ہوئے دوسرا دن تھا انہیں توفیق نہ ہو سکی کہ وہ سہون جاتے انہیں گلے لگنے کے لئے اپنے دوست یاد آئے جو اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث رہے ہیں اس سے ہمارے لیڈران کی ترجیحات نظر آتی ہیں۔

وقت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے گزر یہ بھی جائے گا۔ہاں ایک اور بات یاد آئی اس قتل و غارت کے دور میں ایک بار پھر مدارس پر انگلی اٹھا لی گئی ہے۔لگتا ہے ایک خاص لابی کے پیٹ میں یہ ٢٤ لاکھ بچوں کی سب سے بڑی این جی او ہے جو اللہ کے دین سکھانے میں ہمہ وقت مصروف ہے۔گویا نائن الیون بھی انہی نوجوانوں نے کیا تھا۔اسے سمجھنے کی کوشش کریں یہ ایک سازش ہے کہ جب کبھی اس قسم کی واردات ہوتی ہے ٹی وی چینیلز منہ کھول لیتے ہیں۔لگتا ایسا ہے کہ ہمارا دشمن بھارت پاکستان کے مقتتدراداروں سے کلین چٹ لے چکا ہے اب کوئی کلبھوشن کی بات نہیں کرتا۔اب کوئی فوجی عدالتوں کے قیام کی بات نہیں کرتا۔پاکستانی فوج جو ایک منظم ترین ادارہ ہے لوگ اس کی جانب دیکھ رہے ہیں۔جنرل راحیل کو گئے ابھی کوئی مدت نہیں گزری عدالتیں بنائی نہیں جا رہیں۔سرل المیڈا کیس چرل گیا ہے انڈیا سے دوستی کے گیت گائے جا رہے ہیں۔لاہور کراچی کوئٹہ پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں خودکش حملہ آور پھٹ رہے ہیں۔
یہ سب کیا ہے نئے آرمی چیف سے مطالبے جاری ہیں کہ وہ اپنے پیش رو کی طرح پاکستان کو بچانے لئے اپنا آئینی کردار ادا کریں۔نہ ان سے کسی نے مطالبہ کیا کہ وہ مارشل لاء لگائیں نہ ان سے کوئی مطالبہ ہے لیکن پاکستان کی فوج کی آئینی حدود و قیود ہیں اور انہی میں رہتے ہوئے عوام ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔لوگ پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ کراچی کی دہشت گرد تنظیموں کو فوج نے لگا م دی تھی یہاں بھی وہ ایسا ہی کردار ادا کرے۔سچ پوچھئے کہ پنجاب میں کاروائی نہ کرنا جنرل راحیل کے اوپر بھی ایک چھبتا سوال ہے اور موجودہ فوجی سربراہ سے بھی پوچھا جائے گا۔

پی ٹی آئی کی اس بات کو سراہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ اس نے ایک بہترین پولیس کی بنیاد رکھ دی ہے جو نہ صرف سارے صوبوں کے لئے ایک چیلینج ہے بلکہ خطے کی دوسری پولیس بھی ایک کیس سٹڈی کے لئے اسے رول ماڈل اپنائیں گی۔عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو کاروائی کرنی ہے تو ہم سب سے پہلے حاضر ہیں۔پنجاب میں ماڈل ٹائون قتل کیس کے بعد اس کے ماتھے پر سیاہ ٹیکہ ہے میاں شہباز شریف کروڑوں روپے شہداء کو دیں یا نہ دیں عوام ان سے آزاد پولیس مانگتی ہے ایک ایسی پولیس جس کو دیکھ کر شریف آدمی کے پسینے نہ چھوٹیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ ظالم خود کش دھماکے والا نہ پھٹتا تو پنجاب پولیس ان دوا فروشوں پر ماڈل ٹائون بپاء کرنے والی تھی۔اللہ شہداء کی شہادتیں قبول کرے۔آج ایک اور واقعہ دین محمد کانسٹیبل کا بھی دیکھ لیجئے ۔بھائی صاحب سوشل میڈیا ہیرو بننے جا رہے تھے کہ خود پنجابی پولیس کی پھینٹی کا شکار ہو گئے۔سنا ہے انہیں پاگل قرار دیا گیا ہے۔بھائیو!خیال رکھنا ہمارے دائیں بائیں تھانوں چوکیوں پر کہیں محد دین ہی تو نہیں جو کسی وقت بھی مکمل پاگل بن سکتے ہیں۔

بات ختم کرتے ہوئے پروفیس عنائت علی خان کی شہرہ ء آفاق غزل کے اشعار دیھ لیجئے
حوصلے پست تھے فاصلہ دیکھ کر فاصلے مٹ گئے حوصلہ دیکھ کر
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر (پروفیسر عنائت علیخان)

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری