افغان سیاسی کشیدگی سکیورٹی پر اثر انداز نہ ہونے پائے، جنرل نکلسن

General Nicholson

General Nicholson

واشنگٹن (جیوڈیسک) افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے کمانڈر نے جمعرات کے روز افغان قائدین پر زور دیا کہ سیاسی نااتفاقیوں کو پنپنے کی اجازت نہ دی جائے، جِن سے اِس جنگ زدہ ملک میں سلامتی کے حوالے سے حاصل کردہ کامیابیوں کو ٹھیس پہنچے۔

امریکی جنرل جان نکلسن نے یہ بیان ایسے میں دیا ہے جب صدر اشرف غنی اور اُن کی عملداری کے ساتھی، چیف اگزیکيو عبداللہ عبداللہ سیاسی محاذ آرائی میں جُتے ہوئے ہیں، جس بنا پر اُن کی خودساختہ قومی وحدت کی حکومت کے جاری رہنے کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔

یہ بات جنرل نکلسن نے ایک تحریری بیان میں کہی ہے، جسے ’رزولوٹ سپورٹ مشن‘ نے کابل سے ’وائس آف امریکہ‘ کو بھیجا ہے۔

بقول اُن کے، ’’آر ایس (رزولوٹ سپورٹ) افغان سیاسی عمل کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لیکن، وہ اِس میں ملوث نہیں؛ جس میں ملوث فریق کو ہمارا صرف یہی پیغام ہے کہ برائے مہربانی، سیاسی عمل کے نام پر سلامتی کی کامیابیوں اور سکیورٹی کے اداروں مین ہونے والی پیش رفت کو نقصان نہ پہنچنے دیں، جو گزشتہ چھ سے نو ماہ کے دوران حاصل کیا گیا ہے۔‘‘

غنی اور عبداللہ کے مابین بڑھتا ہوا تناؤ گذشتہ ہفتے پہلی بار اعلانیہ طور پر اُس وقت سامنے آیا جب چیف اگزیکٹو نے صدر پر نکتہ چینی کی اور اُن پر سیاسی سمجھوتے کی شقوں پر عمل درآمد نہ کرنے کا الزام لگایا جس پر ستمبر 2014ء میں دستخط کیے گئے؛ جس کے نتیجے میں قومی یکجہتی کی حکومت تشکیل پائی تھی۔

صدر غنی نے اِس بیان کو نقصاندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ حکمرانی کی بنیادوں کو استوار کرنے کے جذبے اور اصولوں کی غمازی نہیں کرتا‘‘۔

اِس کا جواب دیتے ہوئے، عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ’’قومی وحدت کی حکومت سے متعلق سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد سے؛ ہم اِس سے زیادہ یا کم کوئی بات نہیں چاہتے، چونکہ معاہدے پر عمل درآمد ملک کی بقا اور استحکام کا موجب بنے گا‘‘۔

جب سے یہ سیاسی کشیدگی عام ہوئی ہے، دونوں افغان قائدین نے پہلی بار بدھ کو ملاقات کی، اور اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے وہ آئندہ دِنوں کے دوران مزید بات چیت کرنے والے ہیں۔

اوباما انتظامیہ نے افغان یکجہتی حکومت کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے غنی اور عبداللہ دونوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ خوش حال اور مستحکم افغانستان کے لیے مل کر کام کریں۔

واشنگٹن میں محکمہٴ خارجہ کے معاون ترجمان، مارک ٹونر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تشخیص یہ ہے کہ اُنھیں اہم چیلنج درپیش ہیں، لیکن ہم اُن کے ساتھ تیار کھڑے ہیں ایسے میں جب وہ اِن چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لیے کوشاں ہیں‘‘۔

اُنھوں نے توجہ دلائی کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ اولوالعزم نوعیت کے اصلاحی ایجنڈا پر عمل درآمد کرتے ہیں۔۔۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ علیحدہ رہنے کے بجائے مل کر کام کرنے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہیں‘‘۔

اِس سیاسی تنازع نے ایسے وقت افغان حکومت پر شکنجہ کس لیا ہے جب طالبان لڑاکوں نے ملک کے 34 صوبوں میں سے 15 میں اپنے حملوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران اُنھوں نے جنوبی علاقے ہیلمند اور بغلان اور قندوز کے دو شمالی صوبوں میں اہم پیش رفت حاصل کی ہے۔

جمعرات کو افغان یوم آزادی کے سلسلے میں صدارتی محل میں منعقدہ ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، غنی نے ملکی سکیورٹی کو فروغ دینے کے سلسلے میں قومی سلامتی افواج کی خدمات کو سراہا۔

بقول اُن کے، ’’اِس تاریخی دِن میں تمام افغانوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ امن، خوش حالی اور استحکام کے لیے کام کریں۔ اور میں افغان عوام پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنی سلامتی افواج کے ساتھ کھڑے ہوں، چونکہ ہماری سکیورٹی فورسز نے پہلے ہی یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ دشمن کو شکست دے سکتی ہیں‘‘۔

تقریب میں عبداللہ موجود نہیں تھے اور غنی نے دونوں کے درمیان تناؤ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

سنہ 2014کے صدارتی انتخابات میں غنی اور عبداللہ مدِ مقابل تھے اور پولنگ کے بعد دونوں نے کامیابی کا دعویٰ کیا جب کہ متعدد مبصرین نے بتایا تھا کہ یہ دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی شکار تھے۔ تعطل اُس وقت ختم ہوا جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری درمیان میں آئے اور دونوں کے مابین ایک سیاسی سمجھوتا طے پایا۔

معاہدے کے ذریعے غنی کو صدر جب کہ عبداللہ کو نیا وضع کردہ چیف اگزیکٹو کا عہدہ دیا گیا، تاکہ اپنی قومی وحدت کی حکومت میں اُن کے اختیارات مساوی ہوں۔ سمجھوتے میں یہ بھی طے کیا گیا کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں گی تاکہ تنازعے کے شکار صدارتی انتخابات کی سی صورت دوبارہ پیدا نہ ہو؛ اور یہ کہ دو برس کے اندر اندر ایک آئینی جرگہ منعقد ہوگا تاکہ عبداللہ کے عہدے کو قانونی شکل دی جائے، جو حتمی تاریخ اگلے ماہ ختم ہونے والی ہے۔