ایف پی سی سی آئی کو پانی کی قلت وضیاع پر تشویش

FPCCI

FPCCI

اسلام آباد (جیوڈیسک) ایف پی سی سی آئی کے صدر عبدالرؤف عالم نے کہا ہے کہ ملک میں پانی کی کمی اور ضیاع تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے جو رزاعت و صنعت کے لیے بڑا خطرہ ہے، یورپ کے صنعتی ممالک میں کم از کم 3 ماہ کے پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ زرعی ملک پاکستان میں صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جسے کم از کم 1 ہزار دن تک بڑھانے کی ضرورت ہے، دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود 50 فیصد تک پانی ضائع ہو رہا ہے جو ناقابل قبول ہے، پاکستان سے سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی گزرتا ہے۔

جس کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے، 1947 میں پانی کی فی کس دستیابی 5600 مکعب میٹر تھی جو اب 1000 مکعب میٹر تک گر گئی ہے، 10سال میں ملکی آبادی 25 کروڑ جبکہ پانی کی طلب اور رسد میں 1ارب مکعب میٹر کا فرق ہو گا اس لیے پانی کو جلد از جلد ملکی سلامتی کا معاملہ قرار دیا جائے۔ کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر پانی کی طلب اور رسد کے مابین فرق بڑھتا رہا تو پاکستان جلد ریگستان بن جائے گا جس کے لیے ہمیں پانی کے معاملے پر اختلافات ختم کرنا ہوں گے اور پانی بچانے کیلیے اقدامات کرنا ہوں گے جب کہ عوام خصوصاً کاشت کاروں میں آگہی بڑھانا ہو گی۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر جوہر علی راکی نے کہا کہ متنازع ڈیموں پر بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے غیر متنازع منصوبوں پر توجہ دی جائے، گلگت بلتستان کے علاقے بونجی میں کالاباغ اور دیامر بھاشاڈیم کی مجموعی استعداد سے زیادہ بجلی بنانے کا پوٹینشل موجود ہے، یہ منصوبے دریا کے بہاؤ پر بنیں گے اس لیے سستے بھی ہوں گے، عطا آباد میں بننے والی قدرتی جھیل، ست پارہ جھیل اور سیکڑوں آبشاروں پر چھوٹے منصوبے لگانے سے پاکستان نہ صرف توانائی میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ بجلی برآمد کر کے اربوں ڈالر بھی کما سکتا ہے۔