خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے

Society

Society

تحریر : شیخ خالد زاہد
دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہاں جو بویا جائے گا وہی آخرت میں کاٹا جائے گا، پھر ہمارے پوشیدہ اور اعلانیہ کئے گئے اعمال کی روح جو آسمانوں میں پہنچ کر ہماری آمد کا انتظار کرینگے۔ یقیناً ہماری یہ کھیتی اور ہمارے اعمال ہماری روح کہ ٹھکانے کا تعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرینگے۔الحمدواللہ ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کے امتی ہونے کا فائدہ اٹھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینگے (انشاء اللہ) اوراعمال و کھیتی کے ساتھ جانے سے پہلے ہی اللہ کی رحمت کو سرکارِ دوعالم امام الانبیاء ﷺ کا واسطہ دے کر بچنے کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ہم اپنے گناہوں کی پشت پناہی بھی اپنی ان خوش فہمیوں کی بدولت کرتے ہیں۔

ہمیں ربِ کائنات نے آسانیوں کی بہتات دے دی، اب یہ آسانیاں ہی ہمیں اپنے رب سے دور کرتی جارہی ہیں یا پھر کہیں کہیں شاذ و نادر رب کی قربت کی سرشاری میں مبتلا کر رہی ہے۔ ایسا بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہم ان آسانیوں کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں؟ جیسے آج بچہ اپنی پرورش کو اپنا حق سمجھ رہا ہے اسکے اس حق سمجھنے کی منطق نے تربیت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے، بچے تو اپنا حق سمجھ رہے ہیں مگر حق آسانی سے دینے کیلئے تو دنیا میں کوئی تیار ہی نہیں۔ اولاد کو والدین سے تربیت احسان سمجھ کر لینی چاہئے کیونکہ فی زمانہ اگر والدین تربیت یا اولاد کی دیکھ بھال خود کر رہے ہیں تو یہ واقعی اولاد پر انکا “احسان عظیم” ہے اور پھر والدین اپنے لئے بھی آسمانوں میں وہ اعمال بھیج رہے ہیں جو انہیں انتہائی آرام دہ جگہ پہنچانے والا ہے۔ لیکن اولاد کو یہ بات کہاں سمجھ آئے گی کہ تربیت اور پالنا والدین پر انکا حق ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیچھے “مادیت” کا آیا ہوا طوفان ہے اسکے پیچھے والدین کا مادی چیزوں کو اہمیت دینا ہے اور اسکے پیچھے مادہ پرستی ہے۔

قدرت نے دین و مذہب سے قطعہ نظر انسان کی پیدائش میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں رکھی۔ کسی کو اہمیت اور فوقیت بنانے کیلئے، دنیا میں حیثیت اور مقام بنانے کیلئے اپنی قابلیت، اہلیت اور کارگردگی دیکھانے کی ضرورت ہے۔ ہم سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یہ ہماری شعوری تربیت کا جز ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ “بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر ہم اسے اپنی اپنی جانب مبذول کر لیتے ہیں”۔ دنیا کہ تمام مذاہب سچ اور جھوٹ میں واضح فرق کرنا سیکھاتے ہیں اور یہاں تک کہ کوئی کسی مذہب سے تعلق نہیں بھی رکھتا مگر وہ بھی سچ اور جھوٹ کی بات کر کرتا ہی ہے۔ اب جب کہ سچ اور جھوٹ کی اتنی اہمیت ہے تو پھر ہم صرف اور صرف سچ کیوں نہیں بولتے مگر جھوٹ بول کر ہم دنیا میں فائدہ اٹھانے کہ درپے ہیں اور وہ جو ایک خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے اس پر کان دھرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ ہم دوسروں کو سمجھاتے ہوئے خصوصی طور پر اپنی اولاد کو سچ پر طویل طویل لیکچر دیتےہیں اور پھر خود ہی دروازے پر دستک کے جواب میں اپنی ہی بچے سے کہتے ہیں کہ کہہ دینا بابا گھر نہیں ہیں۔ اب آپ نے کیا بویا ہے ؟ یہ ذرا سی بات نہیں ہے تربیت کی اٹھان میں ایک اینٹ لگائی ہے آپ نے، آپ نے اپنے بچے کو بتایا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے اب چاہے آپ اسے سمجھاتے پھریں کہ اسکی وجہ یہ تھی یا وہ تھی مگر آپکے بچے نے گرہا باندھ ہی ہے اب اسے کھولنا ناممکن ہی سمجھ لیجئے۔

ہمارے معاشرے میں تہذیب نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور دکھ کہ ساتھ لکھ رہا ہوں کہ آنے والی نسلیں اس لفظ کو بھی “قدیم” زمانے کی کوئی قدیم شے سمجھینگے۔ روح صرف جسم تک محدود ہو کر رہے گئی ہے میل جول تعلق داریاں اب سب کچھ واجبی سا لگتا ہے اور آپ کے اس وقت کا جز بنتا ہے جو آپ کے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ یہ باتیں ان لوگوں کیلئے تو تکلیف دہ ہوسکتی ہیں جنہوں نے کم از کم چار دہائیاں گزار لی ہیں مگر جو افراد اس سے کم عمر ہیں انکےلئے یہ ساری باتیں کسی حد تک نایاب ہوسکتی ہیں۔ ترقی کی بے ہنگم دوڑ نے بلکہ نام نہاد ترقی کے دھماکوں نے سب کچھ تحس نحس کر کے رکھدیا ہے، معاشرتی اقدار، تہذیب و تمدن، ادب و آداب اور اخلاقیات سب کچھ روند ڈالا ہے اور ان نایاب چیزوں پر ظاہری چمک دمک اور شور شرابے کی ایک انتہائی موٹی طے چڑھا دی ہے اور ہم نے بھی اپنی آنکھوں پر رنگ برنگی عینکیں لگا کر اس سڑک پر چل پڑے ہیں۔ مشرق اور مغرب کی تقسیم کا فرق اب بہت کم ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ اب ہمیں مغرب مشرق کی سڑکوں پر سر عام نظر آتا ہے۔ مشرق والوں نے مغرب ذدہ ہونے کیلئے “مغرق” نامی تہذیب کو جنم دیا ہے، اس تہذیب کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ جو مشرق ذدہ ہو بس خاموشی سے مغرق تہذیب کو دیکھتے ہی رہ جاؤگے۔

مغرق تہذیب کو پروان چڑھانے والوں میں ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے جو کسی حد تک مشرق ذدہ ہے یا پھر مشرق سے مرعوب ہے مشرق سے مرعوب ہونے کیلئے انکی ترقی کو خاطر میں رکھا جائے یا پھر انکے مخلوط نظامِ حیات کو۔

ہماری پیدائش سے لے کر ملکول موت سے ملاقات تک ہر ہر قدم پر ایک “خطرے کی گھنٹی بجتی” رہتی ہے، کوئی ہمیں ٹوکتا رہتا ہے ہم جب بھی کسی غلط کام کی جانب پیش قدمی شروع کرتے ہیں یا کوئی ارادہ کرتے ہیں کوئی ہوتا ہے جو ہمیں روکتا ہے اور روکنے کی کوشش کرتا ہے، ہم اگر رک جاتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے اگر ہم نہیں رکے تو آسمانوں میں ہمارے اعمال ہمارے استقبال کے منتظر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

یہاں لوگ اپنے عارضی منصب اپنی عارضی کرسیاں بچانے کیلئے اپنا عارضی اسرو رسوخ قائم رکھنے کیلئے جھوٹ اور فریب کا استعمال کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ خطرے کی گھنٹی بجے ہی جا رہی ہے۔ہمیں اندازہ لگا لینا چاہئے کہ ہمارے اپنے اعمال ہمارے کل کا تعین کرنے والے ہیں ہم پھر بھی ایک دوسرے کو یا پھر اپنے آپ کو دھوکہ دئیے جا رہے ہیں اور گھنٹی ہے کہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

Khalid Zahid

Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد زاہد