لمحہ فکریہ

Suicide Attack 2016

Suicide Attack 2016

تحریر : طیبہ عنصر مغل
ابھی تو ہم سال کے بڑے بڑے نقصانات کا اندازہ لگانے میں ہی مصروف ہیں کہ کتنے لوگ جو عام تھے کتنے جو ہم سے عام تھے اور کتنے جو خو اص تھے اس دنیا سے رخصت ہوئے یہ تو ہمارے ملک کی بات ہے کہ ایک سال کے تخمینہ میں ہزاروں افراد کو کھو دیا کتنے انمول موتی تھے جو تہہ در خاک ہو گئے۔

ان گنت ناقابل تلافی نقصان جن کا نعم البدل ناممکن ہے ادھر پوری دنیا میں دائرہ بڑھا دیں کہ مسلم ممالک میں کیا ظلم برپا ہےتو شام فلسطین تو کیا اس سال تو ہمارے دلوں پہ حملہ کیا گیا یعنی سعودی عرب میں بھی خودکش حملے اور ان دنیا بھر کے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد بے بہا،ان گنت، لاشیں، لاشیں اور لاشیں، زخمیوں کا کوئی انت نہیں ہر طرف خون اچھلتا ہےیہ خون اچھالنے والے ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کدھر کو غائب ہو جاتے ہیں سب نامعلوم ،،گھروں کے گھر تباہی کی نظر. میں تو اس سال کواگر تباہی اور غم کا سال قرار دو ں،غم سے عبارت کروں تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔

مجھے کچھ بھی ایسا نظر نہیں آتاکہ جس کے بہانے خوشی منانے کا جواز گھڑ لوں یوں تو پچھلے کئ سالوں میں کوئی قابل قدر کام ہوتا نہیں دیکھا لیکن اس سال نے توبہت مایوس کیا،نوجوانوں کی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ تو مایوس کن نتائج ،کرپشن،بدعنوانی کی جتنی پُرزور مذمت کی گئ اتنا ہی اس کو عروج ملاسیاستدانوں کو ایک ہی صف میں کھڑے ہوکرلوگوں کےجذبات سے کھیلتےاور اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے دیکھاغریب غریب تر اور امیر ،امیر ترین ہوتا گیا،توہم پرستی،فرقہ واریت،انتہاپسندی،لبرل ازم کےنام پر استحصال،سیکولرزم کے کے نام رہی بے راہ روی اور مذہب کا مذاق،زرد صحافت،ادبی چربے،سوشل میڈیا کا بے دریغ اور بے جا استعمال ،نقصان در نقصان لیکن بھئ یہ سب درخوراعتناء کیوں،،،،،،،ہم تو نیوائر منارہے ہیں سائلنسر نکلےبائیکس کی آوازوں میں میری آواز کیسے آئے گی آپ کو،ہلڑبازی،فحاشی،ہوٹلوں میں مجبوری سے کسی شریف آدمی کا ٹھہرنا محال،اوہو کوئی بات نہیں چلیں چھوڑیں آتش بازی دیکھیں ہال بک ہیں اپنے بچوں کی شادیاں اگلے سال کے کسی دن رکھ لیں۔

Aleppo War

Aleppo War

پارٹیز ہو رہی ہیں ڈانس جاری ہیں میڈیا تو سب میں پیش پیش ہے کسی چینل پہ یہ درس نہیں ہے کہ ،،نیا سال،،کے آجانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں جو ہم نے دوسری اقوام کی تقلید میں بنالیا ہے نوافل پڑھو،عبادت کرو،اگلے سال میں امت مسلمہ کی جیت کی دعا مانگو،ڈرو اس بات سےکہ اگلے سال میں نہ جانے ہمیں مہلت ملے نہ ملے،کفن ملے نہ ملےدفن کو دوگز زمین بھی میسر ہوگی یا نہیں بہت ضروری ہوگیا ہےیہ دعا کرناکہ سر راہ مرنے والی عورتیں مردصرف موت سے ہمکنار نہیں ہوتےبلکہ ان کے تن پہ چادریں ڈالنےوالے جانتے ہیں کہ بے پردگی کی موت کس قدر عبرت ناک ہوتی ہے۔

ہم اس نبی پاک کی امت ہیں کہ جن کی صاحب زادی جو مجسم حیا تھیں ان کے دوبال دوپٹے سے باہر آئے تو وقت رک گیا تھا کبھی سوچا ہم خطاکار کس طرف کو جارہے ہیں ،یہ ایک الگ موضوع ہے جس پہ تفصیلاً روشنی ڈالوں گی لیکن پھر کبھی،ابھی تو بھئ ہم نے ہیپی نیو ائیر منانا ہےکہ یہ گناہ تھوڑی ہےکسی کتاب میں اس کے گناہ ہونے کا ذکر نہیں ہےجی،بھئ خوشی منارہے ہیں قوم کو حالت سوگ سے نکال کے نیکی کمارہے ہیں،اس میں کیا قباحت ہے بڑی ذہین قوم ہیں ہم بہت جواز ہوتے ہیں ہما رے پاس ،اجی مبارک ہی تو دے رہے ہیں. لیکن غور تو کریں کہ کیا ہم حالت جنگ میں ہمہ وقت رہنے والی قوم مبارک لینے یا دینے کی اہل ہے کیا ہم باکمال قوم کچھ بھی ایسا کرکے بیٹھے ہیں کہ اپنی کامیابیوں کی خوشی منا سکیں اس بار تو دنیا بھر میں قیامتیں برپا ہوئی ہیں چاہے پھر وہ برلن ہے یا جرمنی،یورپ،امریکہ ہر جگہ تباہی مچی خون کے دریا بہتے رہے۔

شام، حلب میں جو دل دہلا دینے والی ویڈیوز،تصویری سوشل میڈیا پہ دھڑادھڑ اپلوڈکرنے والے،اکتیس دسمبر کی رات کو بھولے بیٹھے ہیں کہ لاشوں کے ڈھیر پہ بیٹھ کر جشن نہیں منائے جاتے. ہم پرتو خوشیاں حرام ہیں تب سے ہی جب سے بیت المقدس پہ قبضہ ہوابیت المقدس کو آزاد کروا نے کی سختی سے وعید ہے،پر وہ تو دور کی بات ہےہم تو عادی ہو چکے ہیں اپنی ذات میں مگن رہنے کے،پر کیا کیا جائے ہم نہیں بھولےکہ یہ وطن کتنی قربانیاں دے کر ملا،ہم نہیں بھولے پاکستان کے ایک انگ کا جدا ہونا اور اس کی قتل وغارت،،ہم سرپھرے نہیں بھولتے،اوجڑی کیمپ کے واقعہ میں تباہ حال جڑواں شہر جب کھنڈر بنا تھااس سانحہ میں مر کے بچھڑنے والے بھی اوران بیٹیوں کو بھی جن کو وہ سانحہ زندہ نگل گیاجو اب تک گھر نہیں لوٹ پائیں ،نہ آرمی پبلک سکول کو ،نہ چارسدہ کو ،پولیس کا ہاسٹل ہو ،یاپارک میں دھماکے،جلوسوں میں مرتے لوگ ،سجدوں کی شہادتیں ،مسجدوں کی بے حرمتی ہو یا لوگوں کی یادداشتوں میں گم ہو جانے والا واقعہ نواب شاہ ،عورتوں کی عصمت دری کا المناک واقعہ ،،کراچی میں گرمی کاقہر اور سرد خانوں کا کم پڑ جانا. لیاقت علی خان سے لیکر اب تک جتنے بھی لیڈر بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارے گئے ہم نہیں بھولے طیاروں کے بے شمار حادثے،ہم آج تک اس طیارے کو ڈھونڈتے ہیں جس کو فلک نگل گیا تھا یا زمین کھا گئ۔

Planes Crashing

Planes Crashing

ہم آج بھی آس کے دئیے جلا کے بیٹھے ہیں کہ کوئی سال ایسا ہو جو بہت سالوں سے نہیں دیکھا جو خوشیوں کے کارواں لے کے آئے اس وطن عزیز میں ،کیسے بھلا دیں آٹھ اکتوبر کے اس زلزلے کو جس نے جانیں تو لیں عزتوں کو بھی نیلام کردیا ،سیلاب جو قہر خداوندی بن کر آئے اور بستیوں کی بستیاں مٹا گئے صفحہء ہستی سے،بھرے دسترخوان پہ بیٹھ کر کھانے والے ہم کیا جانے تھر کا دکھ ،ایک لقمے کی نایابی پہ جاں بلب بچہ، شیرخوار کا ماں کی بھوک نے دودھ سےمحروم کر دینا،روشنیوں کے شہر کراچی کا اندھی گولیوں کا نشانہ بننا کتنے گھروں کے بیٹوں کی لاشوں پہ ماتم کتنے بچوں کی یتیمیبے گناہوں کے اندھے قتل،میری نظریں دیکھتی ہیں ہر طرف، لاشیں، آگ، خون، ایمبولینس کے بجتے سائرن، چیخیں، دکھ، غربت، ظلم، سیلاب، زلزلے ،حادثے، سانحے، بچھڑتے ہوئے پیارے لوگ،کیسے کہوں ،،،ہیپی نیو ائیر،،،افسوس لمحہء فکریہ ،،ہے قرض مجھ پر، کہو تم ہیپی نیو ائیر۔ ۔

ہم لاشوں کے ڈھیر پہ چراغاں نہیں کرتے
دل جس میں جل جائیں وہ ساماں نہ

تحریر : طیبہ عنصر مغل