حلب: بچوں کو کھلونے فراہم کرنے والا دردِ دل رکھنے والا شخص

Aleppo Children Toys

Aleppo Children Toys

واشنگٹن (جیوڈیسک) اپنے آبائی شہر، حلب میں لڑائی سے خوف زدہ بچوں کی پریشان حال تصاویر دیکھ کر، شام سے تعلق رکھنا والا رمیع ادھم اُن کی مدد کرنا چاہتا ہے۔

اور سنہ 2012 میں اُنھوں نے خطرناک سفر کا ایک سلسلہ شروع کیا، تاکہ حلب میں کھلونے اسمگل کیے جا سکیں۔

ادھم فِنلینڈ میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ابتدائی طور پر میں نےشام کا سفر کیا تاکہ زمینی صورت حال دیکھ سکوں‘‘۔

اُنھوں نے یہ بات ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ ایک ٹیلی فون انٹرویو میں کہی۔ وہ چھ بچوں کے والد ہیں۔ بقول اُن کے، ’’میں اپنے ساتھ ذاتی رقم کے علاوہ کھلونے لے کر گیا، جو میں نے اپنے بچوں سے اکٹھے کیے تھے‘‘۔

پہلے سفر کے بعد، ادھم نے بتایا کہ وہ 28 بار سے زیادہ مرتبہ اُس شہر جا چکے ہیں جسے اُنھوں نے 27 سال قبل خیرباد کہا تھا۔

اُن کے اندازے کے مطابق، وہ اب تک 20000 کھلونے لے جا چکے ہیں۔

ستمبر میں اپنے حالیہ ترین سفر میں، وہ تقریباً دو ہفتے حلب میں رہے۔ وہ اپنے ساتھ ٹیڈی بیئر، باربی ڈالس، ’بَز لائٹ یئرز‘ اور دیگر کھلونے لے کر گئے، جو اُنھوں نے دنیا بھر کے مخیر حضرات سے اکٹھے کیے۔

ساتھ ہی، وہ کچھ خوراک اور ادویات بھی لے جاتے رہے ہیں، جو ایک بڑے تھیلے میں سما سکتی ہیں، جو وہ اور دیگر کچھ رضاکار اپنی پیٹھ پر لاد کر لے جا سکتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایک عام سفر کے دوران، وہ 80 کلوگرام اشیا لے جاتے رہے ہیں۔

ہیلسنکی سے حلب تک کا سفر آسان نہیں۔ تینتالیس برس کے ادھم کا کہنا ہے کہ وہ ترکی جاتے ہیں اور پھر چکر کاٹتے ہوئے، ترکی شام سرحد عبور کرکے پیدل حلب پہنچتے ہیں۔ یہ گزرگاہیں ناجائز ہیں اور صرف انسانی ہمدردی کے کارکنان کو ہی یہاں سے حلب جانے کی اجازت ہوتی ہے۔

اپنے تحفظ کے لیے، وہ شام میں اپنی واقفیت کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ ممکنہ دشواریوں سے بچا جاسکے۔ تاہم، ادھم نے کہا کہ اُن کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق رہا ہے۔

ادھم نے بتایا کہ ’’یہ وہ علاقہ ہے جہاں لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ ایک مشکل ترین واقع اس سال کے اوائل میں پیش آیا جب میں ایک مقام پر پھنس کر رہ گیا، جہاں بم گرا اور میں شدید زخمی ہوا‘‘۔

اس واقعے کے بعد، ادھم نے بتایا کہ اُنھیں حلب کے ایک اسپتال لے جایا گیا۔ اُن کا ایک بازو ٹوٹ چکا تھا، جب کہ اُن کی پیٹھ اور گردن پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔ بعد میں، مزید طبی امداد کے لیے اُنھیں ترکی کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا۔

اُن کے کام کی بین الاقوامی میڈیا میں پذیرائی ہو چکی ہے، جن میں بی بی سی، سی این این اور عرب میڈیا کے دیگر ادارے شامل ہیں۔