علی احسن اور صلاح الدین شہدا پاکستان

Salahuddin Quader Chowdhury and Ali Ahsan

Salahuddin Quader Chowdhury and Ali Ahsan

تحریر: میر افر امان کالمسٹ
بنگلہ دیش کی قاتل حکمران حسینہ واجد نے بھارت کے حکمران دہشت گرد مودی کو خوش کرنے کے لیے پاکستان سے محبت کرنے والے ایک اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما علی احسن مجاہد کو پھانسی پر چڑھا دیا وہ بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ممبر رہے ہیں اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے جرنل سیکرٹیری بھی تھے۔ اس کے ساتھ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے صلاح الدین کو بھی پھانسی پر چڑھا دیا گیا وہ بھی بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ممبر تھے۔ اس سے قبل جماعت اسلامی کے دو رہنمائوں عبدلقادر ملا اور قمر الزامان کو بھی پھانسی پر چڑھا چکی ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سابق امیر کو بھی اسی جرم میں ١٠٠ سال کی سزا ہوئی تھی وہ قید کی حالت میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ ان سب کا جرم یہ ہے کہ پاکستان کو بچانے کے لیے انہوں نے ١٩٧١ء میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا۔

جب بھارت نے پاکستان دشمن قوم پرست بنگالیوں پر مشتمل مکتی باہنی بنائی تھی تو اُس وقت پاکستان کو بچانے والے جماعت اسلامی کے پاکستان دوست اسلام پسند بنگالیوںر ہنمائوں نے الشمس اور البدر بنائیں تھی جنہوں نے ایک طرف پاکستان دشمن مکتی باہنی اور دوسری طرف بھارت کی فوج کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا جس کی تعریف پاکستان فوج کے اعلی افسران کر چکے ہیں۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ شیخ مجیب نے بھارت سے مل کرمشرقی پاکستان کومغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے ہندوستان کے شہر اگر تلہ میں سازش تیار کی تھی جس کے تحت مسلح کاروائیاں شروع کی گئیںاور مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کا جینا محال کر دیا تھا۔

ڈکٹیٹر ایوب خان نے شیخ مجیب پر اگر تلہ سازش کیس کا مقدمہ قائم کیا تھا۔پاکستان میںمرحوم ذوالفقار علی بٹھو کی قیادت میں ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف معزولی کی تحریک چلی اور گلیوں میں ایوب خان کو کتا تک کہا گیا تو اُس نے حکومت ڈکٹیٹر یحییٰ خان کے حوالے کر کے وہ ایک طرف ہو گیا۔ ان مخدوش حالات میں ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے پاکستان میں انتخابات کرائے جس کو سیاست دان شفاف انتخابات کہتے ہیں مگر وہ ہر گز شفاف اتخابات نہیں تھے اس لیے کہ مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے خلاف خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ہر طرف دہشت گردی تھی امن وامان کا نام تک نہ تھا مکمل بغاوت کا ماحول تھاان حالات میں انتخابات ہوئے تو لامحالہ شیخ مجیب کی پارٹی نے انتخابات جیتنے ہی تھے۔ووٹوں کے حوالے سے مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی دوسرے نمبر پر تھی مشرقی پاکستان جو بعد میں بنگلہ دیش کہلایا شیخ مجیب نے حکومت بنائی اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بٹھو حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔

Zulfiqar Bhutto

Zulfiqar Bhutto

یہ تو سامنے پیش آنے والے واقعات تھے اور قدرت کا انتقام کچھ اور تھا کہ دیکھیں شیخ مجیب کی قوم نے اس کے پورے خاندان کے ساتھ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا صرف حسینہ واجد بچ گئی تھی کیونکہ وہ اُس وقت ملک سے باہر تھی۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اسلام کے نام سے بننے والی ریاست کو توڑنے میں شیخ مجیب، ذوالفقار علی بٹھو اور اندرا گاندھی شامل تھی۔ اندرا گاندھی کو اس کے محافظوں نے قتل کر دیا اور ذوالفقار علی بٹھو کو ڈکٹیٹرضیاء الحق کے دور میں ایک قتل کے جرم میں عدالت نے موت کی سزا دی جس پر اسے پھانسی پر چھڑادیا گیا۔ یہ مقافات عمل تھا خیرجب یہ سب کچھ ہو گیا جنگی قیدی بھی واپس آ گئے اور تو بنگلہ دیش کو پاکستان نے تسلیم کر لیا پھر تینوں فریقوں میں ایک معاہدہ ١٩٧٤ء میں طے ہوا جسے قانونی زبان میں بین الالقوامی معاہدہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

کیونکہ یہ اب تین آزاد ریاستوں میں طے ہوا تھا اس معاہدے کے تحت سب غلطیوں کو بھلا دیا تھا اور ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کی بھی کاروائی نہ کرنا بھی شامل تھا۔جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔پارلیمنٹ میں قابل ذکر نمائندے جیت کر گئے۔ بلدیاتی الیکشن میں بھی جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بڑی تعداد میں سیٹیں جیتیں۔اب نہ جانے حسینہ واجد کو کیا ہو گیا ہے کہ پرانے معاہدے کو ایک طرف رکھ کر اپنی ہی ملک کے شہریوں کے خلاف ایک نام نہاد عدالتی ٹریبیونل بنا کر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ اس نام نہاد ٹریبیونل کو نہ تو آزاد ملکوںنے صحیح کہا ہے نہ ہی بنیادی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اسے قانونی تسلیم کیا ہے۔ ٹریبیونل کے جج کے ٹیلفون کو دنیا میں سنا دیا گیا کہ وہ حکومت کے حکام سے سزائیں دینے کی ہدایات لے رہا ہے۔

اس کے علاوہ متعصب ٹریبیونل نے ضابطے کی بنیادی عدالتی کاروائی بھی مکمل نہیں کی اور اُجلت میں لوگوں کو سزائیں سنا دیں جس کے پیچھے حکومت کی دشمنی شامل ہے۔مثلاً پاکستان میں تحریک انصاف کے اسحاق خاکوانی صاحب نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ جس واقعہ کی بنیاد پراحسن علی مجاہد کو سزا دی گئی اُس وقت وہ پنجاب یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھ رہا تھا۔عمران خان نے اسی ہی بنیاد پر حسینہ واجد کو فون کیا اور پھر ای میل بھی کی اور سزا کو رکوانے کی کوشش کی مگر حسینہ واجد جو بھارت کے دبائو میں ہے کچھ بھی نہ مانی اور اسی رات دونوں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسی پر چڑھادیا۔جب پہلی دفعہ عبدلقادر ملا کو پھانسی کی سزا سنائی تھی تو پاکستان کی نواز شریف حکومت کو اس بین الاقوامی معاہدے کے تحت عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لے جانے چاہیے تھا مگر جن لوگوں نے نظریہ پاکستان کے لیے جانیں لڑائیں ان کو پاکستان نے تنہا چھوڑ دیا۔

Jamaat e Islami

Jamaat e Islami

جس فوج کے ساتھ شانہ بشانہ مکتی باہنی اور بھات کی فوج کے خلاف لڑائی لڑی اور فوج کے اعلی عہداداروں نے الشمس اورالبدر کے مجاہدین کی تعریفیں بھی کی تھیں کو بھی چپ سادھ گئی اس پر ہم نے اُ س وقت کالم بھی لکھا تھا کہ خدا نہ خاستہ اگر اب کہیں پاکستان پر برا وقت آئے تو پھر کون الشمس اور البدر بنائے گا؟ جماعت اسلامی کو کسی سے مدد نہیں چاہیے اس کا ہر کارکن شہادت کے موت کی تمنا لیے ہوئے ہے ان شہادتوں سے اس کے کارکنوں کے ایمان مزید مضبوط ہوں گے وہ اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے ۔یہ پاکستان، بنگلہ دیش،بھارت، مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، سری لنکا وغیرہ میں موجود ہے اس کی ذیلی تنظیمیں دنیا کے تما م ملکوں میں موجود ہیں حسینہ واجد اوربھارت بلکہ پوری دنیا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ دنیا کے رواج پورے کرتے ہوئے جماعت اسلامی نے ان شہداکی نماز جنازہ پڑھ لیں۔

جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش میں ہڑتال کی کال بھی دے دی حسینہ واجد بھارتی پٹھو حکومت نے فوج بھی بلا لی ۔ پاکستان میں بھی ان شہیدوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر دی احتجاج بھی ریکارڈ کرا دیا گیا۔ جماعت اسلامی تو پاکستان کے نظریہ پاکستان سے بے خبر بزدل حکمرانوں کو یاد کراتی ہی ہے کہ جس وقت اندرا گاندھی نے کہا تھا بھارت نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال حکمرانی کا بدلہ لے لیا دو قومی نظریہ بنگلہ دیش میں ڈبو دیا۔جماعت اسلامی تو اس کے جواب میں بنگلہ دیش میں نظریہ پاکستان کو ابھی تک زندہ رکھا ہوا ہے اور شہادتیں قبول کر رہی ہے۔

کاش اندرا گاندھی کے بیان کے جواب میں پاکستانی حکومتوں کو نظریہ پاکستان کو ابھی تک زندہ رکھنے والے جھونپڑیوں میں تین نسلیں گزارنے والے بہاریوں کو پاکستان بلا لینا چاہیے تھا۔ اب بھی ١٩٧٤ء کے معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نظریہ پاکستان کے شہیدوں کے مقدمے کو لیکر جائے تا کہ ایک طرف انصاف کے تقاضے پورے ہوں ،دوسری طرف نظریہ پاکستان بھی زندہ رہے اور پاکستان بننے والوں کی روحوں کو تسکین بھی نصیب ہو۔ جماعت اسلامی والے رہیں یا نہ رہیں یہ اُس پر چھوڑ دو۔اللہ نظریہ پاکستان جوحقیقت میںنظریہ اسلام ہے کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میرافرامان کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)