الطاف حسین کا کراچی کارڈ اور اب زرداری کا سندھ کارڈ

Altaf Hussain

Altaf Hussain

تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
ابھی تک الطاف حسین صاحب کے کراچی کارڈ سے پاکستانی قوم اور فوج کی قلوخلاصی نہیں ہوئی ہے کہ اب زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کا پرانا سندھ کارڈ کا ڈرامہ شروع کر دیا۔الطاف حسین صاحب تو جب سے ایم کیو ایم بنائی تھی ایک خاص مقصد کے لیے مہاجروں کو پاکستان کے خلاف کرتے رہے ہیں اور اس مخالفت کو اب انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے تو وہ صرف اردو بونے والوں کو ہی مہاجر مانتے تھے۔

اب ہمارے وزیر دفاع نے پاکستان کے مہاجروں کے بارے میںغیر ضروری بیان داغ کر ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ اب الطاف حسین صاحب مشرقی پنجاب کے مہاجروں کو بھی مہاجر ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ آج ہمار موضوع زرداری صاحب کے تازہ فرمودات ہیں اس لیے الطاف حسین صاحب کا معاملہ کسی وقت بعد میں کریں گے۔جب پیپلز پارٹی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو صاحبہ رالپنڈی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئی تھی تو سندھ میں حسب عادت نفرت پیدا کر دی گئی تھی مگر اُس وقت ضرورت کے تحت زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا تھا اور سندھ کارڈ استعمال نہیں کیا تھا۔ کیونکہ اُس وقت تجزیہ کاروں نے اپنے تجزیے بیان کیے تھے کہ بین الاقوامی معاہدے کے تحت زرداری صاحب کو پاکستان کا صدر بنانا طے ہو چکا تھا۔

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

بلا آخر زرداری صاحب اپنی طے شدہ منزل پاکستان کی صدارت تک پہنچ گئے تھے۔ انہی تجزیہ کاروں کے مطابق بے نظیر صاحبہ زرداری صاحب کی دولت کی اندھی ہوس کی وجہ سے سیاست میں نہیں آنے دیتی تھی۔زرداری صاحب کو جب ڈکٹیٹر مشرف نے پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے قید سے رہا کیا تھا تو پاکستان میں سیاست کرنے کے بجائے وہ سیدھا امریکہ تشریف لے گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بے نظیر صاحبہ جب خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے ایک طے شدہ معاہدے کے مطابق پاکستان تشریف لائی تھی مگرپاکستان کے عوام میں اپنی مقبولیت اور عوام کے تیور دیکھ کر بین الاقوامی معاہدے سے ہٹ گئیں تھی تو پھر ایک طے شدہ نئے معاہدے کے تحت اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ الیکشن ہوئے پھر زرداری صاحب اُسی معاہدے کے تحت پاکستان کے صدارت پر بیٹھ گئے۔

اُس زمانے میں یعنی صدارت پر بیٹھنے سے پہلے ہی اخبارات میںایک خبر لکھی تھی۔ زرداری صاحب اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی سے کہہ رہے ہیں کہ چند دن صبر کرو اور دیکھو صدارت پر کون بیٹھ رہا ہے۔ اُسی وقت تجزیہ کاروں نے معاہدے کی طرف اشارے دینا شروع کر دیے تھی۔ مرحوم بے نظیر بھٹو صاحبہ کی سوچ صحیح ثابت ہوئی اور اسی دولت کی لالچ کی وجہ سے زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کا جنازہ نکال دیا۔ پہلے ٢٠١٣ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کاصفایا ہوا ۔ صرف سندھ کی حد تک سمٹ گئی۔ آخر میں گلگت بلتستان کے بلدایاتی انتخابات میں وہاں سے بھی صفایا ہو گیا۔پیپلز پارٹی نے سندھ میں بھی صحیح ڈلور نہیں کیا۔ سندھ کے اداروں میں ایسے نااہل حضرت لگائے جنہیں نے صرف کرپشن ہی کی۔ پہلے کور کمانڈر نے اس بات کو بیان کیا اور پھر رینجرز کے کمانڈر نے ٢٣٥ ارب کی سالانہ کرپشن کا کہا۔ رینجرز نے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مار کر کرپشن میں ملوث افسران کو گرفتار کر کے نیب کے حوالے کر دیا۔اس پر پیپلز پارٹی میں ہل چل مچ گئی۔زاداری صاحب نے اپنی کرپشن کو شیلٹر دینے کے لیے فوج کے خلاف ناجائز بیانات دیے۔ جس پر سب سیاسی پارٹیوں نے ان بیانات کو ناپسندیگی سے دیکھا۔زرداری صاحب کے بیانات کو رد بھی کیا۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

نواز شریف صاحب جن کی پیپلز پارٹی سے خاموش مفاہمت چل رہی تھی نے بھی زرداری صاحب سے طے شدہ پروگرام کے باوجود ملاقات نہیں کی اور کہا کہ فوج پر تنقید ملک دشمن قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے اس نازک مرحلے میں قومی سطح پر اتفاق ضروری ہے۔ رینجرز کو پہلے اختیارات دیے جب رینجرز نے کرپٹ مافایا پر ہاتھ ڈال رہی ہے تو اس کی مخالفت شروع کر دی ۔ رینجرز کے مطابق کرپشن کا پیسہ دہشت گردی میں استعما ل ہورہا ہے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ صاحب نے ڈی جی رینجرز اور وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب کو خط لکھا ہے کہ رینجرز اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری صاحب کو کچھ ہی دن پہلے ایک سیاسی جلسے میں سیاسی نابالغ کہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ کہا تھا اس کی سیاسی تربیت کرنی ہے۔ پھر اُس کو سیاست میں لائیں گے۔

کیا یہ اُس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے کہ سیاست میں آتے ہی اپنی کرپشن کی بارکینگ کے لیے اُسے امتحان میں ڈال دیا گیا ہے۔ الیکٹرنک میڈیا پر زبردست ڈسکشنز ہو رہی ہیں۔ کچھ حضرات کہ رہے ہیں کہ زرداری صاحب نے فوج کو اسکی دفاہی کمزرویاں گن کر کہ ایک طرف بھارت آنکھیں دکھا رہا ہے دوسری طرف طالبان ہیں ،یہ تاثر دیا کہ میں بھی کھڑا ہو گیا پورے پاکستان کو بند کر دوں گا اور جب تک نہ میں نہ کہوں گا پاکستان بند رہے گا تو آپ کیاکر لیں گے۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فوج کو دھمکی ہے۔ لبرل صحافی امتیاز عالم صاحب نے سندھ کے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی حمایت میںتو بہت ہی آگے بڑھ کر بولے کہ اگر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی مل جاتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں فوج کیا کر لے گی ۔ کم و بیش تمام چینلز پر تجزیہ کاروں نے زرداری صاحب کے فوج کو دھمکی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور مشورہ دیا کہ ہر حالت میں رینجرز کی نشان زدہ کرپشن پر ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ زردادری صاحب نے بڑھک مار کر کہا اگر ہمیں تنگ کرنا بند نہ کیا تو پاکستان بننے کے بعد سے فوج کی کرپشن کی میرے پاس لسٹ ہے جسے جاری کروں گا تو پھر آپ جواب دیتے رہنا۔مزید کہا تم نے تو تین سال رہنا ہے ہم نے ہمیشہ سیاست میں رہنا ہے۔

زرداری صاحب کی ان تند وسخت اور ناجائز بیانات کو پیپلز پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے توسیخ کر دی۔ بلاول زرداری بھٹو کو الیکشن لڑا کر اپوزیشن لیڈر بنانے کے بھی منظوری دے دی۔زرداری صاحب نے اپنی کمزوریوں پر رجوع کرنے کے بجائے غلط قدم اُٹھایا ہے۔پوری دنیا میں مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہونے کی تلافی کے بجائے کرپشن کو ختم کرنا چاہیے تھا مگر کیا کیا جائے زر،زن اور زمین کے جھگڑوں نے بڑی حکومتوں کو ختم کر دیا اس میں فرد کی کیا حثیت ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ زرداری صاحب نے فوج کو للکار کر اچھی بات نہیں کی۔کہیں الطاف حسین صاحب کی طرح رجوع نہ کرنا پڑے کہ میں تو را کی بات محاروتاً کی تھی۔ دیکھتے ہیںزرداری صاحب آپ کیا بہانہ تراشیں گے؟ذاتی اور سیاسی پارٹیوں کے آپس جھگڑے جو کچھ بھی ہوں اللہ ہمارے پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)