ملائشیا سے ہی سبق سیکھ لیں

Malaysia

Malaysia

تحریر:علی عمران شاہین
وال سٹریٹ جرنل امریکہ کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ یہ اخبار ہفتے میں چھ دن شائع ہوتا ہے جبکہ ایک دن چھٹی ہوتی ہے۔ اس اخبار کی اس وقت اشاعت 25لاکھ سے زائد ہے جس میں اس کی 9لاکھ آن لائن ڈیجیٹل کاپیاں بھی شامل ہیں۔ سال گزشتہ یعنی 2015ء میں اس اخبار نے صحافتی دنیا کے 39ایوارڈ اپنے نام کئے۔ اخبار کا نام نیویارک کی مین ہٹن کے علاقے میں واقع مشہور عالم معاشی منڈی ”وال سٹریٹ” سے منسوب ہے۔ یہ اخبار 8جولائی 1989ء سے شائع ہونا شروع ہو کر اب تک بلاتوقف چھپ رہا ہے۔

چند ہفتے پہلے اس اخبار نے آج کی مسلم دنیا کے ایک اہم ملک ملائشیا کے حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا۔ A Stricter Islam Displaces Old Ways in Malaysia ”سخت گیر اسلام ملائشیا کی قدیم روایات کی جگہ لے رہا ہے” اس کی ذیلی سرخی میںاسلام کے خلاف خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ”سخت گیر وہابی عقائد اسلام پر عمل کی نئے طور پر تشریح کر رہے ہیںاور کچھ قدیم رسومات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔” بتایا گیاکہ سعودی عرب سے پڑھ کر آنے والے علمائے کرام کی دعوت سے ملک کا ماحول بدل رہا ہے۔

اخبار نے اپنی خصوصی رپورٹ کا آغاز دارالحکومت کوالالمپور کے ملک گیر شہرت یافتہ ایک عامل سے کیا ہے جس کا نام کیلانا اندراسکتی لکھا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ یہ شخص ملک کا سب سے بڑا جادوگرو عامل و پیشوا ہے۔ اس کے گھر میں دنیا کی قیمتی ترین مرسٹڈیز گاڑیاں بھی کھڑی ہیں جو اس کے چاہنے والے مریدوں اور پیروکاروں نے اسے تحفتاً دی تھیں۔ اسے ملائشیا کے ایک بڑے سلطان نے بڑے القابات سے نوازا تھا لیکن اب یہ شخص اپنے پاس آنے والے لوگوں کے علاج وغیرہ کیلئے تمام تر قدیمی جادو ،ٹونے اورعملیات ترک کر کے دم کے طور پر قرآنی آیات پڑھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب تو لوگ قرآن پر ہی اعتبار کرتے ہیں، سو میں نے قرآن ہی پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ نیشنل یونیورسٹی آف ملائشیا کوالالمپور میں گزشتہ دنوں ایک میڈیکل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ممتاز ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ کانفرنس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ جسمانی بیماریوں کا علاج قرآن سے کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کانفرنس میں شریک ڈاکٹر حامدی عبدالرحمن جو دنیائے طب سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی ملکی تنظیم کے سربراہ ہیں، نے بتایا کہ ”ہم لوگ اسلام کے قدیم طریقہ علاج کو بھول چکے ہیں کہ اس سے کیسے شفا ملتی ہے اور کیسے اس سے مدد لی جا سکتی ہے۔”

Muslim women

Muslim women

جی ہاں! یہ آج کے اس ملائشیا کی باتیں ہیں کہ جو اس وقت معاشی لحاظ سے مسلم دنیا ہی نہیں ،دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔ ملک میں مسلم آبادی کا تناسب 61.3 فیصد ہے لیکن ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ ریاست اور عوام اسلام سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ ریاست خود ملک بھر میں عالیشان مساجد تعمیر کرتی اور ان کا مکمل انتظام و انصرام سنبھالتی ہے تو عوام انہیں آباد کرنے کے لئے نمازیں ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلم خواتین اس کثرت اورخوشی سے باپردہ لباس اور سکارف پہنتی ہیں کہ غیر مسلم خواتین بھی ان کی دیکھا دیکھی ان جیسا لباس پہنتی دکھائی دیتی ہیں۔ مسلم دنیا کے عظیم مبلغ و عالم ڈاکٹر ذاکر نائیک او ران کے ہونہار فرزند فاروق نائیک ان دنوں ملائشیا کے دورے پر ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطاب کو سننے کے لئے ایک جگہ 30ہزار لوگ جمع ہوئے تو فاروق نائیک کے خطاب کو سننے کیلئے دوسری جگہ چار ہزار سے زائد لوگ جمع تھے۔ صوبہ نہانگ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ہونے والے فاروق نائیک کے پروگرام میں ریاستی نائب وزیراعلیٰ واعلیٰ حکام کے ساتھ ریاست کے مفتی وان سلیم محمد نور بھی موجود تھے۔ دوسری طرف ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات سن کر کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔

چند روز پہلے خبر ملی کہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اسی ملائشیا کا 8روزہ دورہ کر کے لوٹے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے وکلاء اور ان کی تنظیموں الامہ لائرز فورم اور حرمت رسولۖ لائرز موومنٹ نے طے کیا کہ کیوں نہ ڈاکٹر صاحب کو ہائیکورٹ مدعو کر کے ایک فکری نشست منعقد کی جائے کہ ہم بھی سوچ سمجھ سکیں کہ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس میں ممدومعاون ہے۔ ہمارے ہاں جو فکری بُعد پایا جاتا ہے کہ جیسے اسلام کو اپنا لیا تو نجانے ہم کتنے ہی پیچھے چلے جائیں گے، اس حوالے سے فکری کجی دور کی جائے۔ اس منفرد پروگرام کے حوالے سے راقم کو روابط و تیاری کی ذمہ داری سونپی گئی اور پھر ہمہ وقت خدمت دین کے لئے مستعد و متحرک مخدوم جمیل فیضی اور رائو طاہر شکیل بھی کمر کس کر میدان میں آ گئے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر رانا ضیاء الرحمن نے پروگرام کی صدارت کیلئے حامی بھری کہ مقصد جو نیک تھا۔

پروگرام کے روز خوشاب میں ایک وکیل کے احاطہ عدالت میں قتل کی وجہ سے پنجاب بار کی ہڑتال تھی لیکن پھر بھی وکلاء کی ایک بڑی تعداد کراچی شہداء ہال میںحاضر تھی۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ بروقت تشریف لائے۔ مختصر تعارف کے بعد انہوں نے بتانا شروع کیا کہ ملائشیامیںاگرچہ ہمارے جیسی بھاری مسلم آبادی بھی نہیں لیکن وہاں کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اسلام کے ریاست کے مذہب ہونے یا نہ ہونے کی بحث چھیڑ سکے۔ ملک کی قومی و سرکاری زبان ملایا ہے (یعنی انہیں ہماری طرح انگریزی سے نہ کوئی مرعوبیت ہے اور نہ احساس کمتری کا بخار کہ ہم انگریزی کے بغیر کہیں جاہل نہ قرار پا جائیں) یہاں 40فیصد کے قریب غیر مسلم آبادہیں جن میں اکثریت بودھ مت ہے لیکن اسلام قبول کرنے والے ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ حکومت نے اسلام اور مسلمانوں کی مستعمل 49اصلاحات کے غیر مسلموں کی جانب سے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے کہ مبادا کہیں وہ اسلام کے کسی شعائر کی توہین کا ارتکاب نہ کر ڈالیں۔ اسلام کے نظریہ پر بننے والے ہمارے وطن عزیز میں حلال خوراک کے حوالے سے بہت ہی کم احتیاط برتی جاتی ہے جبکہ ملائشیا میں اس کا اہتمام انتہائی کڑاہے۔ یہاں ہر مسجد میں خواتین کیلئے نماز کی جگہ کا اہتمام ہے، جہاں انتظامیہ کی جانب سے بھی عبایا اور سکارف کا اہتمام ہوتا ہے۔ نسل نو کی دینی تعلیم بھی لازمی ہے۔یہاں سبھی بچے قرأت قرآن کے ایسے ماہر ہوتے ہیں کہ ہر کوئی ایک سے بڑھ کر ایک ہی محسوس ہوتا ہے۔

Azan

Azan

ہر ٹی وی چینل پابند ہے کہ وہ پانچوں نمازوں کے لئے اذان نشر کرے۔ ایک چینل صرف دینی تعلیم و تربیت کے لئے مخصوص ہے جبکہ دیگر تمام چینلز کے لیے لازم ہے کہ وہ نشریاتی دورانیے کا 20فیصد اسلام کی تبلیغ و تعلیم کیلئے مختص کریں۔ یہاں ہر روز اسلام سے محبت اور عمل گہرا اور پختہ ہو رہا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صرف اسلام کے نام پر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کئے گئے وطن عزیز پاکستان میں آج بھی یہ بحث ہوتی ہے کہ اسلام کو ریاست کا مذہب ہونا چاہئے کہ نہیں؟ حالانکہ یہ بحث تو بنتی ہی نہیں کیونکہ قائد اعظم تو بار بار یہ فرما گئے تھے کہ ہمارا نظام حکومت صرف اور صرف اسلامی ہو گا۔

انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ملک میں سودی نہیں ، اسلامی نظام معیشت چلے گا۔ آج ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ دنیا میں کامیاب ترین معاشی نظام اسلام کا غیر سودی نظام ہے۔وہ سبھی اس جانب بڑھ رہے ہیں لیکن ہم سود سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ہمارے ہاںسمجھا جاتا ہے کہ جیسے اسلام اپنا کر ہم پیچھے نہ رہ جائیں اور ہمیں کوئی دقیانوس نہ سمجھنا شروع کر دے جبکہ ملائیشیا جیسی عالیشان اور روشن مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں ملائشیا، سعودی عرب اور ترکی سے یہ تو کچھ سیکھنا چاہئے کہ اسلام ہی مسائل کا حل اور ترقی و فلاح کی شاہراہ ہے۔

رانا ضیاء الرحمن فرمانے لگے کہ میں بھی کچھ ہی عرصہ پہلے ملائشیا کا دورہ کر کے آیا ہوں۔ وہاں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ اسلامی تحریکیں آزادی سے کام کر رہی ہیں ۔ سب لوگوں کو با عمل مسلمان ہونے اور اس پر خوشی ہے اور جیسے ہمارے ہاں اس حوالے سے غیرعلانیہ ندامت اور پشیمانی سی پائی جاتی ہے ،وہاں اس کا شائبہ تک نہیں۔چند دن پہلے ملائیشیا کے صدر نجیب عبدالرزاق کا بیان سامنے آیا کہ نیک مقاصد کے لئے بھی اسلام مخالف قوتوں سے اتحاد ممکن نہیں۔وہ اس بارے میں قرآنی آیات پڑھ رہے تھے۔یہ سب کچھ سن، پڑھ اور سمجھ کردست بدعا ہوں کہ اللہ ہمیںبھی وہ دن دکھادے کہ ہم بھی اسلام کے سایہء رحمت کی جانب لپک پڑیں اور وطن عزیز حقیقی منزل تک پہنچ جائے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر:علی عمران شاہین
برائے رابطہ:0321-4646375