اپنی انا کے خول سے باہر نہ آ سکے

اپنی انا کے خول سے باہر نہ آ سکے
دنیا کے سامنے کبھی کھل کر نہ آسکے

ہم سے رہیں زمانے کو کیا کیا شکائتیں
لیکن کبھی بھی ہم سرِ منبر نہ آسکے

محرومیوں کی دھوپ میں جلتی رہی حیات
موسم دیارِ عشق کے بہتر نہ آسکے

اونچے ہوئے ہیں وقت کے بازار کے نِرخ
اپنی وفا کے دام تو اوپر نہ آسکے

کچھ لوگ بادہ خانے کے مدہوش روز و شب
باہر سے دیکھتے رہے اندر نہ آسکے

لرزاں تھا جِن کے نام سے ظلمات کا فسوں
محفل میں پھر وہ چاند سے پیکر نہ آسکے

یہ سوچ کر بھی رودِیے ہم سے فقیر لوگ
اس شہرِ کم شناس میں کیونکر نہ آسکے

ساحل خلوص کے دِیے جب بھی جلائے ہیں
اپنی طرف ہوائوں کے لشکر نہ آسکے

Angry Couple

Angry Couple

تحریر : ساحل منیر