معمار یا بیمار؟

Allah

Allah

تحریر: شاہ بانو میر
اللہ پاک کو کسی انسان کی ادا پسند آجائے تو وہ کیفیت اُس پر مستقل کر دی جاتی ہےـ مثال کے طور پر کوئی نعمتوں کا شکر آنسوؤں سے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو روتا دیکھنا چاہتےـ پاکستان کا ہم نے مزاج بنا دیا شور شرابہ رولا پگڑیوں کو اچھالنا بات کا بتنگڑ رہی سہی کسر آزاد میڈیا کی مہربانی کی صورت مشرف صاحب کر گئےـ بغیر تعلیم کے کوئی ہُنر وہ نہیں سکھا پاتا جو اس ہُنر کی اصل مانگ ہوتی ہےـ میں نے فرانس آکر دیکھا کہ معمولی سے کام کو سائنسی انداز میں اتنا بڑہا دیا گیا ہے کہ وہ معمولی ہماری نظر میں کام جب مکمل ہوتا ہے تو انسان اعلیٰ تعلیم یافتہ بن جاتا اور اپنے شعبے کا ماہر بھیـ ہمارے ہاں ظلم ہوا کہ ہم نے پیسہ حاصل کر لیا رشوتوں کے ذریعے کاروبار چمکا کےـ دے لے کے خود کو منوا کےـ ہر پاکستانی صرف دولت کے حصول کیلیۓ پاگل بنا زندگی کو گھسیٹ رہا کہ اس کے بچوں کو بہترین سکول چاہیے وہاں ہزاروں کے حساب سے فیس کی مد میں رقم کا انتظام کرنا ہے ـ اسکا سکول یونیفارم قیمتی کتابیں ٹرانسپورٹ جیب خرچ کسی شہزادے کی پرورش سے موجودہ دور میں کم نہیںـ

ایسے میں وہ کیا کرے؟ ایک کے بعد دوسرا حاکم آتا ہے جس سپر پاور کو وہ من پسند لگتا اس کے ذریعے پاکستان کو نیا نظام نئی سوچ دے کر دھکیلا جاتا کبھی ضیاء سر پے دوپٹہ تو کبھی مشرف بے حجاب نظارے صرف معاشرتی سوچ نہیں اس کے ساتھ اصل مقصد معیشت کے ذریعے رقوم کی پاکستان مختلف مد میں منتقلی اور پھر اپنے کچھ من چاہوں کو ملٹی نیشنل کمپنیز میں لے جا کر راتوں رات ارب کھرب پتی بنوا کر اپنی نسلوں کیلیۓ تا حیات کمپنیز کی جانب سے بھی ماہانہ کمیشن اور دوست تو ہیں ہی ان کے زیر بار یوں صبح سے شام تک خون پسینہ بہانے والی یہ عوام چند ہاتھوں کی لوٹ مار سے اپنا حصہ اپنا رزق لینے سے محروم جس کا نتیجہ آسان یا شارٹ کٹ اندازِ زندگی اور یہ اندازِ زندگی اور امیروں کی ہوس دولت ایسے ایسے انداز سامنے لا رہی ایک طرف دولت چند ہاتھوںمیں سمٹی ہوئی ہے دوسری جانب ضروریاتِ زندگی بھی ناپید جس کی وجہ سے چھینا جھپٹی اور مسلسل کھینچا تانی ملک کو معاشرے کو اخلاقی پستی میں دور دھکیل دیتی جہاں سے واپسی نا ممکن ہو جاتیـ

ذہنی مریض بڑہتے جاتے اور ان کی بیمار سوچ گندی مچھلی کی طرح اپنی سڑاند پھیلا کر دولت کے حصول کیلیۓ نسلوں کو مذموم مقاصد کیلیۓ استعمال کر کے غیر انسانی غیر اخلاقی سلوک کر کے ان بچوں کو نفسیاتی مریض بنا کر دولت بٹور کر گویا ملک سے اس نظام سے اپنا خوفناک انتقام لیتےـ ایسی ایسی دل دہلا دینے والی لرزہ خیز داستانوں کی تشہیر سے یہ ملک زلزلاتی کیفیت کا شکار رہتاـ ایک بڑی خبر کا شور ختم ہوتا تو دوسری اس سے بڑی گردش کرنے لگتی اور میڈیا سرپٹ بھاگتا بریکنگ نیوز کی جانب اللہ پاک کو ان کی ہنگامہ آرا طبیعت ایسی بھائی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بریکنگ نیوز کانوں سے ٹکراتی رہتی ہےـ

Pakistan Midia

Pakistan Midia

میڈیا نے خبروں کو اتنا ہوشربا بنا دیا کہ پاکستان انٹرٹینمنٹ میں پیچھے چلا گیا اور ہنگامہ آرائی ظلم و ستم سفاک داستانوں کی وجہ سے نیوز چینل کا جنکشن بن گیاـ دولت تو سیٹھوں نے اتنی سمیٹی چرب زبان اینکرز کی صورت اور تباہ کر دیا ہمارا وہ سکون اور اطمینان کہ جب خبریں اخبار کی صورت گھر آتی تھیں کوئی خبر بہت ہولناک ہوتی تو وہ ریپ کی ہوتی جس کو پڑھ کر ذہن الجھ جاتا تھاـ کسی سے تفصیل نہیں پوچھ سکتے لہٰذا خود ہی قیافہ آرائی کرتے لیکن ذہن پریشان رہتا یہ اچھی طرح یاد ہےـ آج کے بچوں کا کیا حال ہے؟ کیا اس سفاک میڈیا نے سوچا؟ ہمارے وقتوں میں ٹی وی کے اوقات ہوتے تھے سر شام ٹی وی کا آغاز ہوتا اللہ کے کلام کے بعد دینی تعلیم اور کے بعد بچوں کے پروگرام پھر علاقائی اور اس کے بعد ایک گھنٹے کی خوبصورت تفریح کوئی نہ کوئی ڈرامہ جس کو ساری فیملی بیٹھ کر دیکھ سکتی تھیـ

ڈرامہ ختم ہوتے ہی خواتین سونے چلی جاتی تھیں اور بچے بھی سکول کالج کی تیاری کیلیۓ ہوم ورک کیلیۓ اٹھ جاتے گھر کے بڑے بوڑھے اور والد رہ جاتے اور پھر پختہ خیال یا سنجیدہ مزاج پروگرام ہوتے جن میں بڑے تفکر والے دماغ بیٹھتے جن کو مسائل سن کر اس کی نوعیت کے مُطابق سوچنا آتا تھاـ آج یہ صورتحال ہے کہ اس میڈیا نے اتنی کمائی کر لی کہ ان کے بچے تو اردو شائد پڑھنا لکھنا نہیں جانتے لہٰذا انہیں فکر نہیں کہ وہ کیا دن رات ٹی وی پر سنا رہے دکھا رہےـ لیکن متوسط طبقہ بڑی تعداد میں ابھی بھی اردو میڈیم سکول میں بچوں کو بھیجتا ہےـ اور وہ بچے اردو میں بولا ہوا ہر لفظ سن کر سمجھتے ہیںـ بچوں کیلیۓ میڈیا اس وقت کوئی محتاط پالیسی نہیں اپنا رہا ہے ـ گھروں میں 24 گھنٹے ٹاک شوز کسی پھاپھا کٹنی کی طرح مسائل کو نمک مرچ لگا کر خوب چٹخارہ دار بنا کر اپنا ٹھیلا تو وقت مقررہ پے بڑھا کر اٹھ جاتےـ

Psychological Problems

Psychological Problems

لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جو ایشوز ڈسکس کئے جا رہے کیا وہ بچوں پر مثبت اثرات ڈال رہے قصور میں ہوئی شرمناک درندگی 200 بچوں کی ذہنی نفسیاتی تباہی جس کا تدارک عمر بھر ممکن نہیں کیا اس کا شور شرابہ یوں ہونا چاہیے تھا؟ کیا ٹی وی پر سیاسی رہنماوؤں کو اس ایشو پر ببانگِ دہل بولنا چاہیے تھا؟ کیا میڈیا نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے؟ 200 تو برباد ہوئے لیکن جو لاکھوں بچے گھروں میں چلنے والے ہر وقت ٹی پروگرامز کو نہ چاہتے ہوئے بھی کانوں تک آنے سے نہیں روک سکتے کیا وہ نفسیاتی مسائل کا شکار نہیں ہو رہے؟ کچھ ہ سمجھ پا رہے کچھ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے اور کچھ کو سمجھتے سمجھتے اپنے دماغ کو الجھا بیٹھے ؟ آخر ہم کب تک یہ نوٹنکیانہ انداز اپنا کر مسائل کا حل نہی مسائل کو جُل دیتے رہیں گےـ

ہر ایک اینکر آتا ہے آکر اپنی قابلیت جھاڑتا ہے اور رخصت ہو جاتا ہےـ خُدا کا واسطہ جس ملک میں سب چلتا ہے وہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں چلتا ہر ادارہ تباہ کر دیا جاتا ہےـ آپ سب سے اپیل ہے اس ملک کو اپنے خاندان کی طرح دیکھا کریں جس میں کوئی حساس نوعیت کا مسئلہ ہو تو خاندان کے بڑے بوڑھے میٹنگ کی صورت الگ بیٹھتے اور اس کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے اور اندر ہی نمٹا لیتے ہم نے تماشہ بنا لیا خود کو مشہوری کے نام پر اور اپنے بے بنیاد ناکام ادارے تشہیر کی خواہش پر کیا بولنا چاہیے کتنا بولنا چاہیے ہمیں یہ شعور نہیں ہم نے بس تماش بینوں کی طرح کسی کی ہرزہ سرائی کرنی ہے کیونکہ نہ ہم تعلیم یافتہ افراد ہیں نہ مہذب معاشرہ اور نہ ہمدرد شہری قصور پر جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کو منظرِ عام پرلا کر پاکستان کو مزید بے عزت نہ کیا جائےـ

سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لے یا پارلیمنٹ کے اندر قرارداد منظور کر کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے اس پروگرام پر بحث رات 11 بجے کے بعد کے ٹاک شوز میں ہونی چاہیے دن بھر اس قسم کے حساس اور بچوں کے ذہنوں کو تباہ کر دینے والے عنوانات پر پرہیز بہتر ہے ـ اس ملک کی بد نصیبی پہلے سکولوں میں طلباء غیر محفوظ ہوئے جس کا بہت برا نفسیاتی اثر بچوں کے اذہان پر پڑا اس کے بعد مسلسل حملوں کی خبریں گردش میں رہیں اور اب یہ اتنا ہولناک دل دہلا دینے والی گندگی میڈیا آپ کا یہ انداز رہا تو ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے کم اور آپ کے انداز کی وجہ سے زیادہ ذہنی مریض مستقبل میں دیکھ رہی ہوںـ خدارا ہوش کیجیۓ اس ملک کو مستقبل کے معمار دیجیۓ بیمار نہیںـ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر