آمد رمضان اور پاکستان

Ramzan Kareem

Ramzan Kareem

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
چند دن بعد وہ با برکت مہینہ شروع ہو رہا ہے کہ جس میں خالق ارض و سماء نے قرآن مجید فرقان حمید جیسی لازوال کتاب کا نزول فرمایا یہ کوئی عام نصابی کتاب نہیں بلکہ آئین انسانیت ہے مکمل ضابطہء حیات ہے بالخصوص اس ماہ میں ہمیں صبر درگزر اور بھائی چارے کا لافانی مظاہرہ کرنا چاہیئے نا کہ چھریاں تیز کر کے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے گلے کاٹنے کی تیاری ۔میں عرصہ دراز سے یہ دیکھتا چلا آرہا ہوں کہ آمدرمضان کو بالائے طاق رکھ کر ہم آمدن رمضان کو ذہن میں رکھتے ہیں ہر چیز کے بھائو تیز کر دیتے ہیں جیسے اس مہینے کی کمائی ہی پورا سال کھانی ہے ارے بھائی میرے جو خالق پورا سال روزی دیتا ہے اس ماہ مبارک میں شکرانے کے طور پر اگر آپ اس کی مخلوق میں خوشیاں بانٹنے کا باعث بن جاو گے تو آپ کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی بخیر ہو گی ۔مگر ہم نے تو جیسے قسم اٹھا رکھی ہے کہ کوئی بھی چیز کسی غریب کی دسترس میں آنے نہیں دیں گے۔

کپڑے جوتے اور دیگر اشیائے ضروریہ ان کی قیمتیں ہم لوگ ایک ہی جست میں ساتویں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں میرے وطن کا غریب مزدور جسے عام د نوں میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں وہ بیچارہ مائہ صیام میں کیا کرے گا اس کے دل پہ کیا بیتے گی کبھی سوچا ہم نے ؟اور امسال تو تاجروں کی خود ساختہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ عوام کو بجٹ بم کے بھاری وار کو بھی سہنا پڑے گا آٹا دالیں چینی چاول بیسن گھی سبزیاں اور پھل دس دن پہلے ہی چوتھے آسمان پر براجمان ہو چکی ہیں اور دیکھ لیجیئے گا رمضان شروع ہوتے ہی یہ تمام اشیاء ساتویں آسمان پر جا کر صاحب استراحت ہونگی اس پہ طرہ یہ کہ بجٹ انکو و ہاں سے بھی آگے دھکیل دے گا۔

کبھی کبھی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آپ دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں آپ دیکھیں گے کہ وہ قومیں اپنے مذہبی تہواروں پر ضروریات زندگی کی اشیاء کے بھائو پچاس فیصد تک کم کر دیتے ہیں تا کہ بلا تخصیص امیروغریب اپنے تہوار خوش اسلوبی سے منا سکیںمگرافسوس پاکستان میں ایسا نام کو بھی نہیں یہاں ہر چیز دوگنا سے چار گنا تک بڑھا دینا ہم کارثواب سمجھتے ہیں میرے دیس کے تاجر سے لے کر حکمرانوں تک سب ہی تجوری بھرو پالیسی پر گامزن ہیں ۔کسی محل والے کو کسی جھونپڑی والے کے حالات سے کوئی غرض نہیں ۔یہاں کا امیر آدمی یہ سمجھ بیٹھا ہو کہ یہاں کی تمام دولت اور نعمتوں پر صرف اسی کا حق ہے غریب تو ہیں ہی کیڑے مکوڑے اسی لیے جیسے کیڑے مکوڑوں کے لیے انواع و اقسام کی زہریں مارکیٹ میں دستیاب ہیں بالکل اسی طرح غریب کو مارنے کے لیے مہنگائی سے بڑی کارآمد زہر کوئی نہیں۔

Inflation

Inflation

مگر یہ غریب بھی بڑی سخت جان چیز ہے وہ مہنگائی کے اس زہر کا علاج صبر اور شکر کی ویکسین سے کر کے پھر زندہ رہتا ہے تو بات ہو رہی تھی ماہ رمضان میں عوام کے ساتھ برتائو کی کہ ہمارے ہاں کوئی حق حاصل نہیں کسی غریب کو کہ وہ اچھی پوشاک زیب تن کر سکے اچھی خوراک سے استفادہ حاصل کر سکے یا اچھے گھر میں رہائش پذیر ہو سکے ۔وہ ایسا کر بھی کیسے پائے گا ؟کون اس کے حالات بدلنے کی سوچے گا ؟وہ حکمران جن کے اپنے شکم سیر نہیں ہوتے ؟وہ بیوروکریٹس جن کی چھتوں سے لے کر صوفوں تک نوٹ اگلتے ہیں ؟یا پھر وہ تاجر جو دس روپے والی چیز پچاس کی بیچ کر بھی کہتے ہیں کہ آج کل مارکیٹ میں مندی کا رجحان ہے ۔ابھی کل کی بات ہے میں ایک ویڈیو کلپ دیکھ رہا تھا جس میںایک معمر غریب آدمی ایک پھل فروش سے اللہ کے نام پر کیلا مانگتا ہے تو وہ پھل فروش اس بزرگ کو ایک گلا سڑا کیلا دے دیتا ہے اچانک وہ بزرگ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو جیب کے کسی کونے کھدرے سے دس روپے نکل آتے ہیں اب جو بزرگ دوبارہ پھل فروش کو دس روپے دے کر کیلے مانگتے ہیں تو پھل والا ایک تروتازہ کیلا بزرگ کو تھما دیتا ہے۔

بزرگ بڑی حیرانگی سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں دیکھ اے پاک پروردگار اس دنیامیں اب تیرے چاہنے والے کم اور دولت کی پوجا کرنے والے زیادہ ہیں ۔ انسان جس قادر مطلق سے رزق لیتا ہے اس کے نام پر دینے کے لیے وہ بیکار سی چیزوں کا انتخاب کرتا ہے اول تو کسی غریب کو ان زمانے کے خداوں سے جسم ڈھاپنے کے لیے لباس کی توقع ہی نہیں اور اگر کوئی اکا دکا غریب پروری کرتے ہوئے کسی کو لباس دے گا بھی تو وہ بھی اپنی اترن دے گا ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ نئے ملبوس سے کوئی کسی غریب کا بدن ڈھانپتا ہوادکھائی پڑے اگر چاروناچار وہ کسی مفلس کو بغرض نمائش نئے کپڑے تقسیم بھی کریں گے تو میڈیا کے سامنے تاکہ دنیاکو دکھا سکیں کہ ہم نے غرباء میں کپڑے تقسیم کیے تاکہ زمانے کی نظروں میں ان کی واہواہ شاوا ہو سکے۔

یہاں ایک اور بات غور طلب ہے وہ یہ کہ جو لباس انہوں نے غرباء میں تقسیم کیا کبھی اسی تھان کے کپڑے سے اپنا سوٹ سلوانا پسند کیا ہو ؟ نہیں ایسا ممکن نہیں ۔حالانکہ اسلام میں واضع طور پر یہ حکم ہے جو چیز اپنے لیے پسند کرو وہی چیز اپنے غریب بھائی کے لیے بھی لو ۔جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے اگر ہم برابری کی سطح پر سوچیں گے تو سٹیٹس کو کیسے بچا پائیں گے ؟ہم یہی تو چاہتے ہیں امیر امیر دکھائی دے اور غریب غریب ۔وہ مالک کائنات ہی ہے جو سب کا پالن ہار ہے شکر ہے اس ذات عالی کا جس نے رزق صحت موت و حیات کا نظام اپنے قبضہ قدرت میں رکھا ہوا ہے اگر یہ بھی انسانوں کے ہاتھوں میں ہوتا اور خاص طور پر پاکستانی وڈیروں جاگیرداروں افسرشاہی یا پھر حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوتا تو آج پاکستان کی آبادی بیس کروڑ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہوتی وہ بھی آپس میں دست و گریباں ہوتے۔

Ramzan Package

Ramzan Package

کونسلر سے لے کر وزیر اعظم تک کسی کو اتنی توفیق نہیں ہو گی کہ رمضان کے با برکت مہینے میںایک ایک بے گھر غریب کے گھر جا کر اپنے طور پر بلا پوچھے کہ اپ کے گھر رمضان المبارک کے لیے کچھ ہے یا نہیں نا صرف روز ہ داری کے لیے بلکہ عید سے پہلے ان کو عید کی خوشیاں بہم پہنچائے اور حقیقت میں ثابت کرے کہ آپ میرے نہیںدراصل میں آپ لوگوں کا محتاج ہوں کیونکہ ہر الیکشن پر بھیک مانگنے ووٹ کے لیے انہی لوگوں کے پاس جانا ہوتا ہے ۔ مگر یہاں حالات اس کے برعکس ہیں ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جن سے ووٹ کی بھیک مانگ کر اقتدار کے ایوانوںمیں جاتے ہیں بعد میں انہی لوگوں کو بھکاریوں کی طرح اپنے بنگلوں کے باہر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رکھا جاتا ہے یا پھر بڑے درشت لہجوں میں دھتکار دیا جاتا ہے ۔قارئین مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس نے آف شور کمپنیاں بنائیںمجھے اس سے بھی غرض نہیں کس کے کتنے محلات ہیں مجھے اس سے بھی کوئی لینا دینا نہیں کہ کس کی کتنی فیکٹریاں ہیں کتنا بینک بیلینس ہے ہاں آپ کا حق ہے اپنے اپنے کاروبار کو بڑھوتری دوانوں تک رسائی پاتے مگر اپنے مال سے ۔سب کو حق ہے اپنا کاروبار کرنے کا کرو شوق سے کرو۔

مگر یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ لوٹ مار کر کے وہ اپنا کاروبار تو کرے اور جو اس گھر کے اصل مکین ہیں یعنی پاکستانی عوام وہ اس گھر کے لیے قربانیاں بھی دیں اپنا مال جان اولاد اس گھر پہ نچھاور کر دیں اور یہ بدیسی لوگ آکر ان پر حکمرانی بھی کریں اور حقوق بھی انہی کے سلب کریں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کب جاگیں گے ہم ؟ہم کب تک لٹتے رہیں گے ؟کب تک ہماری بیٹیاں کہتی رہیں گی بابا اس عید پہ میں وہ سوٹ لوں گی فلاں جوتا لوں گی اس رنگ کی چوڑیاں لوں گی اور کب تک ہم ٹھنڈی آہ بھر کر اور خون کے گھونٹ پی کر رہ جائیں گے ؟جس طرح ہم پہ مہنگائی مسلط کی جا رہی ہے اور آنے والے خونی بجٹ میں جس شکنجے میں عوام کی گردن دبوچی جا رہی ہے جسقدر ٹیکسز لاگو کئے جا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اب غریب کو کریش کرنے کا جامعہ منصوبہ تشکیل دے دیا گیا ہے ۔تبھی تو وزیر خزانہ سے لے کر سیکریٹری مارکیٹ کمیٹی تک کسی کو یہ احساس نہیں کہ مائہ صیام میں غریب اور مزدور پہ کیا بیتے گی۔

پرائس کنٹرول پر کسی کی توجہ نہیں ۔ہو بھی کیوں ؟جنہوں نے توجہ دینی ہوتی ہے ان کے گھروں میں اعلی اقسام کے پھل اور سبزیاں بہترین مشروبات اور گوشت بالکل مفت خود بخود پہنچ جاتے ہیں اور غریب صرف ریٹ سن کر دم بخود رہ سکتا ہے ۔اسی کا کوئی پرسان حال نہیں یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پانامہ ہنگامہ میں جتنا نقصان اس پاک دھرتی کا ہو چکا ہے اس نقصان کی تلافی بھی اسی کے خون سے ہو گی جو اس وطن کا حقیقی مالک ہونے کے باوجود لاوارث ہے اسی لیے تو مہنگائی اور ٹیکسز کا بوجھ بھی اسے ہی سہنا پڑے گا نا ۔بقول شاعر ؛
پکارا جا رہا ہے پھر کسی کو قتل ہونا ہے
سو چلتا ہوں کہ اب تنہا مجھی کو قتل ہونا ہے

Labour

Labour

قسم بخدا یہ دھرتی کل بھی غریب مزدور اور کسان کی دھرتی تھی آج بھی یہی اس ماں دھرتی کے جائے ہیں یہ بڑے لوگ نا کل اس ماں کا خیال کرتے تھے نا اب انہیں اس دھرتی ماں سے کوئی سروکار ہے یہ لوگ تو ایسٹ انڈیا کمپنی پارٹ ٹو ہیں ہمارے لیڈر ہمارے راہنما صرف اور صرف ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو اس دھرتی سے نمو پا کر اسی خاک میں جانے کا عزم رکھتے ہوں جو تعلیم پائیں تو یہاں سے جو بیمار ہوں تو علاج کے لیے وہاں جائیں جہاں میں اور آپ خوار ہوتے ہیں اگر یہ لوگ حقیقت میں اپنے وطن کے ساتھ مخلص ہوں تو رب کعبہ کی قسم میری اس پاک سرزمین سے امیر ملک دنیا میں کوئی نہیں۔

مگر میری اس دھرتی کا المیہ یہ رہا ہے کہ اسے آج تک ماسوائے چند ایک کے کوئی ایسا فرزند ملا ہی نہیں جو اس کا سچا خیر خواہ بھی ہو نیشنلٹی تو شہریت کو ہی کہتے ہیں نا جن کی اپنی اور ان کی اولادوں کی نیشنلٹی کسی اور ملک کی ہو کیا وہ اس نیشن کا حصہ ہو سکتے ہیں ؟ جب ان لوگوں کا اس ملک اور قوم سے ناطہ ہی کوئی نہیں تو کس قوم کا درد محسوس کریں وہ ؟ اس رمضان میں عوام کی رہی سہی کھال بھی ادھڑ جائے گی فاقہ کشی کو روزہ کا نام دے گا غریب اور بالآخر عید کے دن اپنے بچوں سے منہ چھپاتا پھرے گا
عید کے دن اداس سے گھر میں ایک بیوہ غریب روتی ہے
اس کا بچہ یہ پوچھ بیٹھاہے عید بنگلوں میں ہی کیوں ہوتی ہے

بہرحال ہم لوگوں نے اگر روزہ رکھنا ہے تو اپنے خالق کی رضا کے لیے جو اتنی مشکلات میں بھی ہماری سانسوں کی ڈور کو ٹوٹنے نہیں دیتا ۔ہاں ہم سب مل کے یہ عہد کریں کہ اپنی حیثیت کے مطابق سحرو افطار میں اور عید کے دن کے لیے ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے یہی سبق دیا ہے پیارے آقاۖ نے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اب ہمیں خود اپنی حالت کو سنوارنے کے لیے عمل پیرا ہونا پڑے گا آج تک ہماری حالتوں کو سنوارنے کا جھانسہ دے کر بہت سارے بدیسی خود بدل چکے ہیں۔

Doctor MH Baber

Doctor MH Baber

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mob; 03344954919
Mail : mhbabar4@gmail.com