اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں اختلاف کی خلیج وسیع ہو گئی

Ashraf Ghani and Abdullah Abdullah

Ashraf Ghani and Abdullah Abdullah

تحریر : محمد اشفاق راجا
افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان جو تنازعہ شروع ہوچکا ہے کیا وہ ختم ہو جائے گا یا اس میں تدریجاً اضافہ ہوگا؟ اگرچہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دونوں رہنماؤں سے بات کرکے ان کے تنازعات ختم کرانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تنازعات ختم ہوگئے ہیں اور دوبارہ سر نہیں اٹھائیں گے، عبداللہ عبداللہ نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دیدی ہے۔ وہ وزیر خارجہ رہے ہیں اور 2014ء کے صدارتی الیکشن میں ڈاکٹر اشرف غنی سے شکست کھاگئے تھے تاہم انہوں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ امریکہ نے افغان سیٹ اپ کیلئے جو انتظام کر رکھا تھا اس میں اکیلے اشرف غنی کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ان کے مخالفین طاقتور تھے اور متحد ہوکر ان کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے تھے، چنانچہ امریکہ نے ایسا انتظام کردیا کہ دونوں ایک ہی حکومت میں اکٹھے چلتے رہیں، دونوں کے درمیان سیاسی معاہدہ بھی ہوگیا، اس انتظام کیلئے جان کیری نے بڑی محنت کی تھی اور عبداللہ عبداللہ کیلئے چیف ایگزیکٹو کا نیا عہدہ تخلیق کیاگیا تھا۔دو سال تک اکٹھے کام کرتے رہنے کے باوجود دونوں میں اختلافات اب بھی موجود ہیں بلکہ بڑھ گئے ہیں اور یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگر یہ اختلافات رفع نہ ہوئے تو عبداللہ عبداللہ حکومت سے الگ ہو جائیں گے اور اشرف غنی کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔

امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان میں اپنے قیام میں توسیع کردی ہے اور اب یہ معلوم نہیں کہ امریکہ کب واپس جائے گا۔ اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں اعلان کیا تھا کہ امریکی افواج نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں سے بھی واپس بلا لی جائیں گی، لیکن ان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہ ہوسکا چنانچہ اوباما نے اپنی صدارت کے پہلے دور میں افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا تاہم نیٹو کے کئی ملکوں نے اپنی افواج واپس بلا لیں اور محض نمائندگی کیلئے تھوڑے بہت فوجی افغانستان میں چھوڑ دیئے۔ اوباما کا فیصلہ تو فوج واپس بلانے کا تھا لیکن فوجی کمانڈر اس کے خلاف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس طرح نہ صرف امریکہ کیلئے مشکلات بڑھ جائیں گی بلکہ افغانستان کیلئے جس طرح کے انتظامات کئے گئے ہیں ان کو جاری رکھنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اوباما اور فوجی کمانڈروں کے اختلافات اور ان کے تصفیے کی تمام کہانی ممتاز امریکی صحافی باب ووڈ ورڈ نے اپنی کتاب ”اوباما کی جنگیں” میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہے جس کا اردو ترجمہ روزنامہ ”پاکستان” میں انہی دنوں جب ووڈ ورڈ کی کتاب منظرعام پر آئی تھی شائع ہوچکا ہے۔

John Kerry

John Kerry

جان کیری نے جمعرات کو صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بات کی اور انہیں کہا کہ وہ اپنے اختلافات ختم کردیں کیونکہ اگر یہ اختلافات جاری رہے تو ان اصلاحات کو نقصان پہنچے گا جو امریکہ نے افغانستان میں متعارف کرائی ہیں۔ غالباً امریکی مداخلت پر دونوں رہنماؤں کی گزشتہ روز ملاقات بھی متوقع تھی جو نہ ہوسکی۔ گزشتہ دس دنوں میں جب دونوں کے اختلافات ابھر کر سامنے آئے یہ اپنی نوعیت کی دوسری ملاقات ہوتی، جس کا مقصد اختلافات کی خلیج پاٹنا تھا۔ ایک ملاقات اس سے پہلے ہوچکی ہے جس کے بعد بھی اختلافات موجود ہیں۔ اشرف غنی طالبان کے خلاف آپریشن وسیع کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کس حد تک کامیاب ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اشرف غنی طالبان کے تمام گروپوں کو مذاکرات پر آمادہ نہیں کرسکے۔ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختلافات اس وقت نمایاں ہوکر سامنے آگئے جب صدر نے اپنے سٹاف میں بعض ایسے عہدوں پر تقرر کئے جنہیں عبداللہ نے پسند نہیں کیا۔

2014ء میں دونوں رہنماؤں کی حکومت کو نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا نام دیا گیا تھا اور اس میں طے ہوا تھا کہ اہم قومی فیصلوں میں عبداللہ عبداللہ کی مشاورت ضروری ہوگی، لیکن ان کا موقف ہے کہ اکثر امور میں انہیں نظرانداز کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر معاہدے پر پوری طرح عملدرآمد شروع ہو جائے تو معاملے کا حل نکل سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان جوملاقات ہوئی تھی اس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی امور میں فیصلے کرتے ہوئے ان سے مشاورت کی جائے اور اس مقصد کیلئے انہیں برابر کا حصے دار سمجھا جائے۔ ملکی پالیسیاں بناتے وقت ان کے نظریات کا لحاظ رکھا جائے اور مختلف عہدوں پر تقرریاں کرتے وقت ان سے مشاورت کی جائے۔

Mohammad Ashfaq Raja

Mohammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا