آسیہ بی بی

Asia Bibi

Asia Bibi

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
آسیہ بی بی ملعونہ و گستاخ رسولۖ کا کیس ١٣ اکتوبر ٢٠١٦ کو اسلام آباد کی اعلی عدالت میں ہے۔یہ ایک اپیل ہے جو اس نے سزائے موت کے خلاف دی ہے۔ہر مجرم کو حق حاصل ہے کہ وہ اپیل کرے خاص طور پر اسلام میں ذمیوں کے حقوق ہیں۔لیکن ایک حق آقائے نامدارۖ کا بھی ہے۔کسی بھی بینالاقومی دبائو کو مد نظر نہ رکھا جائے اور ملعونہ کو تختہ دار پر لٹکایا جائے۔اسی حرافہ کا دفاع کرتے ہوئے سلمان تاثیر قتل ہوا اور ممتاز قادری اس دنیا سے شہادت کو رتبہ پا کر گئے۔ سب کی نگاہیں کورٹ کے فیصلے پر ہیں۔

اس کے بارے میں اس کے ہم مذہ پوری دنیا میں شور مچا رہے ہیں انگلینڈ جرمنی میں مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔لیکن افسوس کہ ہماری عدالتوں نے جو اچھے کام کئے ہم اس کے پیچھے بھی نہیں کھڑے ہوتے۔سچ پوچھیں تو اس گلوبل ویلیج میں ہم اقلیت ہیں میں نے تو ایک محفل میں جے سالک سے کہا تھا کہ ہمیں اس دنیا کی عددی اکثریت کی حامل مسیحی کمیونٹی کے مظالم سے بچائو جو وہ ہم پر پاکستان میں افغانستان شام عراق لیبیا صومالیہ میں ڈھا رہی ہے۔کوئی نہیں بولتا اس لئے کہ ادھار لینا ہے اور ادھار دینا ہے ۔لگتا ہے اب عدالت پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اس ملعونہ کو چھوڑ ا جائے۔ایک اور دبائو بھی ہے کہ حافظ سعید کو گرفتار کیا جائے جماعت الدعوة پر پابندی لگائی جائے ۔یہ بات کس منہ سے کہلوائی جا رہی ہے وہ منہ ہے رانا افضل کا جسے مسور کی دال والا منہ کہا جا سکتا ہے۔

پہلی بات ہے ہم احترام نبی محمدۖ میں پاکستان کے لوگوں کو یہ بتاتے ہی نہیں کہ آسیہ بی بی نے کیا خرافات بکی تھیں۔میں آج کے اس تحقیقی کالم میں بتانے کی کوشش کروں گا کہ وہ کون تھی جس کے لئے سلمان تاثیر، شہباز بھٹی اور بعد میں غازیء ملت ممتاز قادری اس جہان سے گئے۔میری معلومات کے مطابق یہ عورت ١٩٧١ مین شیخوپورہ کے گائوں اٹن والی میں پیدا ہوئی۔اس نے عاشق مسیح سے شادی کی جس کے پہلے سے ہی دو بچے تھے ۔عاشق کے آسیہ کے بطن سے تین بچے پیدا ہوئے۔یورپ میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں اس میں انسانی ہمدردی کا یہ پہلو ولسن چودھری الین گرے کی زبانی اٹھایا گیا ہے کہ وہ پانچ بچوں کی ماں ہے۔عاشق اینٹوں کے بھٹے میں کام کرتا تھا اٹن والی میں ایک یہی گھرانے مسیحی تھا باقای سب مسلمان تھے ایک اور الزام بھی لگایا گیا کہ اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی رہی گویا کہ آسیہ بی بی اور ان جیسے اور لاکھوں لوگ کسی اور دین کو چھوڑ کے ان مسیحی پادریوں کی وجہ سے عیسائی نہیں بنے تھے۔

Asia Bibi Case

Asia Bibi Case

برصغیر میں انگریز جب آئے تو اپنے ساتھ مبلغین بھی لائے عین اسی طرح جس طرح مسلمان اس علاقے میں آئے تو مبلغین بھی ان کے ساتھ تھے اور وہ خود بھی مبلغ تھے۔عیسائیت قبول کرنے والے دلت لوگ تھے جنہیں شودر بھی کہا جاتا ہے۔برصغیر میں ان لوگوں سے شدید نفرت کی جاتی تھی خاص طور پر ہندو معاشرہ ذات پات میں الجھا ہوا تھا اور ہے۔شودروں کا تو جینا ہی حرام تھا یہ لوگ عیسائی مشنریوں کے ہاتھوں مسیحی بن گئے۔دبے ہوئے اور پسے ہوئے لوگ تو ویسے ہی ایمان بیچنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔اور ہم مسلمان کون سے عرب سے آئے تھے اسلام اسی طرح پھیلا لیکن ہندو معاشرے کی اچھائیاں برائیاں ابھی تک برصغیر میں پائی جاتی ہیں جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ مسلمان عورتوں نے اس پر تشدد کیا کہ تم نے اس کنویں سے پانی کیوں لیا جس سے ہم لیتے ہیں ۔ان عیسائیوں کے خاص طور پر برتن الگ رکھے جاتے ہیں خصوصا جو نالیاں گٹر صاف کرتے ہیں۔بعین اسی طرح جیسے ہندو مسلمانوں کے برتن الگ رکھتے تھے اور ہیں قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ پٹھ لیجئے ایک اے سی کے برتن بھی الگ رکھے گئے صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھا۔

آسیہ بی بی کوئی جاہل یا سادہ عورت نہ تھی۔اس جرم کے ارتکاب سے پہلے اس کے مخلتلف این جی اوز کے ساتھ بھی تعلقات تھے۔ایسی این جی اوز پاکستان کے معاشرے کی غلط تصویر پیش کر کے اس کی بدنامی کا باعث بنتی رہی ہیں۔ اقوام عالم کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کا ریاستی مذہب اسلام ہے یہ دنیا کہ واحد ریاست ہے جو مذہب کے نام پر بنی۔کچھ لوگ کم علمی کی وجہ سے اسرائیل کو بھی اس لسٹ میں شامل کرتے ہیں وہ سراسر غلط ہیں اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو زمین چھین کر بنایا گیا اور دنیا بھر کے یہودیوں کو کہا گیا کہ آئو اور اس وطن میں رہو جب کے پاکستان کی آزادی کی ایک تحریک چلی اور بر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے الگ ملک حاصل کیا۔

آسیہ بی بی فالسے لگاتی تھی کسی بات پر جھگڑا ہوا اور اس نے بہت سی خواتین کے سامنے نبی پاکۖ کے لئے انتہائی نازیبا الفاظ کہے۔حرمت رسولۖ کا تقاضہ ہے کہ میں وہ الفاظ نہ لکھوں لیکن یہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ میرے اس کالم کا ترجمہ عربی اور انگریزی میں بھی ہوگا اور میں ان لوگوں سے بھی مخاطب ہوں جو اردو نہیں پڑھ سکتے لیکن مسلمان اور کچھ غیر مسلم بھی ہیں۔اس ملعونہ نے کہا

١۔آپ کے نبی خود ساختہ ہیں۔قران آسمانی کتاب نہیں
٢۔آپ کے نبی بیمار ہو کر مرے۔ان کے جسم میں نعوزباللہ کیڑے پڑ گئے تھے

٣۔انہوں نے مال کے لالچ میں خدیجہ سے شادی کی ملعونہ نے اس کے علاوہ بھی بکا۔یہ باتیں ہوئیں اور اس کے خلاف شیخوپورہ کی عدالت میں مقدمہ درج ہوا جج نے اسے سزائے موت سنائی یہ مقدمہ ٢٠٠٩ میں درج ہوا اور ٢٠١٠ میں اسے سزا سنا دی گئی۔ اب آئیے آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں قانون توہین رسالت مابۖ کب آیا۔یہ ایک فرد واحد کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔یہ بات تو واضح تھی کہ آئین کے آرٹیکل ٢ کے تحت ریاست کا مذہب اسلام ہے۔اسی کی روشنی میں لاہور کے ایک وکیل اسمعیل قریشی نے عدالت سے رجوع کیا اور کہا کہ اگر ریاست کا مذہب اسلام ہے اور اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محموۖ ہیں تو ضروری ہے کہ ان کی توہین ان کے بارے میں میں کسی بھی گستاخی کو روکنے کے لئے آئین میں ترمیم یا اضافہ ضروری ہے۔

اسمعیل قریشی کے دلائل میں یہ بھی شامل تھا کہ اس قسم کے قوانین برطانیہ میں بھی ہیں۔میں نے خود تحقیق کی اور اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ شق برطانوی قوانین میں ہے اور خاص طور پر اس کی مزید تصدیق ہوئی کے ۔باپ اور ماں یہاں مراد ھضرت مسیح موعود ع اور ھضرت مریم کے بارے میں شیطانی الفاظ کہنے والے کی گردن ماری جائے۔یہ ریفرینس میرے پیج کی وال پر موجود ہے۔جس کسی نے دیکھنا ہو دیکھ لے Engr Iftikhar Chaudhryکے نام سے پروفائل موجود ہے۔اسمعیل قریشی اس دوران دنیا سے چلے گئے عدالت نے ان کی اپیل منظور کی اور شرعی عدالت نے فیصلہ دیا کہاسے آئین کا حصہ بنایا جائے جو 295cکے تحت آئین پاکستان میں موجود ہے شرعی عدالت نے اس قانون کو ١٩٩٠ میں منظور کیا وہ آئین کا حصہ بن گیا۔اللہ تعالی اسمعیل قریشی کو کروٹ کروٹ جنت بخشے آمین۔

Court

Court

اسی قانون اور اسی آئین کے تحت آسیہ کو سزا ملی اور ہم ان صفحات سے اعلی عدالت کو بتانا چاہتے ہیں۔کہ نبی اکرمۖ کی توہین کرنے والی یہ خاتون پاکستان کے آئین و قانون کے تحت سزا کی مرتکب ہوئی ہے اس کی اپیل مسترد کی جائے۔یہ ملک اللہ اور اس کے رسولۖ کے نام پر بنا ہے اسی کے ضابطے تقاضہ کرتے ہیں کہ آسیہ کی گردن لمبی ہو۔ قارئین اب ہم بات کرتے ہیں ان مسلمانوں کی جو پیدا تو مسلمان ہوئے ہیں لیکن لبرل بن کر اس سزا کے خلاف آواز بن رہے ہیں میرا ان سے ایک سوال ہے بنگلہ دیش نے پے در پے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دی ہیں آپ وہاں کیوں نہیں بولے؟کوئی رحمان چشتی ہے انگلینڈ میں اس کا نام لیا جا رہا ہے کہ موصوف کو کافی تکلیف ہے۔

خواجہ اجمیرالدین چشتی اجمیری سے نسبت رکھنے والے اس انگریزی پاکستانی سے بس اتنا ہی کہوں گا اوڑک جانا گھر وے۔۔۔ میں یہاں ایک دلچسپ واقعہ تحریر کرنا چاہوں گا۔اس سے ہر گز مقصد نہیں کہ میں کوئی بہت بڑا عاشق رسولۖ ہوں لیکن ہوں تو عاشق۔یہ ان سردیوں کی بات ہے کوئی دو سال پہلے بنی گالہ میں ایک پریس کانفرنس ہوئی۔بہت بھرپور کانفرنس تھی عمران خان آئے اور انہوں نے این اے ١٢٢ کی دھاندلی کا تفصیلی تذکرہ کیا۔اور اٹھ گئے ان دنوں نبی پاکۖ کے خاکے چھپے تھے پوری دنیا کے مسلمان سراپہ ء احتجاج تھے عمران خان پریس کانفرنس ختم کر کے اٹھ گئے میں نے ایک صحافی جس کا نام ٹکا خان ثانی ہے اسے کہا عجیب لوگ ہیں آپ ایک سوال بھی ان خاکوں کے بارے میں نہیں کیا۔میں نے اسے مجبور کیا کہ جائو عمران خان کو روکو۔اللہ اسے جزائے خیر دے اس نے روکا اور میں نے عمران خان سے کہا کہ خان کل آپ سعودی عرب جا رہے ہیں وہاں روضہ ء رسولۖ پر بھی جائیں گے۔آقاۖ آپ سے یہ تو نہیں پوچھیں گے کہاین اے ١٢٢ کی دھاندلی کا کیا بنا وہ یہ ضرور سوال کریں گے کہ میری تضحیک ہو رہی تھی تم نے کیا کیا۔

عمران خان نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا صحافی تو چلے گئے۔میں نے کہا نہیں ہیں وہ دوبارہ بیٹھے اور بڑی تفصیلی گفتگو کی جس میں انہوں نے تجویز دی کہ اسلامی کانفرنس اقوام متحدہ میں یہ کیس لے کر جائے اور جس طرح ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنا جرم ہے اسی طرح ہمارے نبیۖ کی توہین بھی جرم قرار دی جائے۔یہی حل ہے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے ورنہ کئی آسیہ تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی پیدا ہوتے رہیں گے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو کوئی ہماریپیارے نبیۖ کی توہین کرتا ہے اسے یورپ اور جرمنی میں سیاسی پناہ مل جاتی ہے ہمارے دہشت گرد(مذہبی) مغرب کے ہیرو بن جاتے ہیں۔کیا یہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔جو کوئی قادیانی جرمنی چلا جائے اسے پناہ مل جاتی ہے۔اس پر غور کرنا ہوگا۔عدالت عالیہ جان لے کہ وہ اللہ کے ہاں جواب دہ ہے وہ اللہ جو سب کا پالنے والا ہے۔ہماری اقلیتیں ہمارے پیارے نبیۖ کا احترام کریں ہماری مذہبی ذمہ داری ہے ہم ان کے نبیۖ کا بھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح اپنے کا۔آسیہ بی بی کو لٹکنا چاہئے۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری