ورنہ کے مصنف کا اوجِ کمال

Poetry

Poetry

تحریر: سید مظہر کاظمی
کائنات کے رنگ رنگ سے شاعری اور موسیقی کا ایک دلآویز طلسم پھوٹ رہا ہے گوناگوں بوقلموں اور رنگینیوں کی بہا رہے۔ جو انسانی روح کی پہنائیوں میں ایک طلسماتی سحر بکھیر رہی ہے حتیٰ کہ گہری خاموشی اور سناٹے کا بھی ایک اپنا ایک شاعرانہ رنگ ہے۔

اچھی شاعری ہر انسان کے اندردل کی صداہوتی ہے۔ایک اچھا نثر نگار جوبات پانچ چھ سوصفحے کے ناول میں کہتا ہے یاایک افسانہ نویس اپنی کہانی کے اندر بیان کرنا چاہتا ہے۔

وہی بات شاعر اپنے ایک شعر کے اندر سمو دیتا ہے۔اور یہی ایک شاعر کا کمال ہوتا ہے اوریہی کمال” ورنہ” کے مصنف میں موجود میں ہے۔یہ” ورنہ” ورننگ والا”ورنہ” نہیں ہے بلکہ یہ” ورنہ” دیہات میں بیٹھے ایک شاعر کے دل کی آواز ہے جووہ ہم سب کو سنانا چاہتا ہے۔

Poet

Poet

آج ہربندہ شاعربننے کے چکرمیں ہے جیساکہ شاعر بننا بھی ثواب ہو مگر شاعری کے فن سے کوئی کوئی واقف ہوتاہے آجکل شاعری توبہت تخلیق ہورہی ہے لیکن شاعری کم اوربھڑکیں زیادہ ہوتی ہیں ہم محنت اورمطالعہ کے بغیر افسانہ میں انتظار،ناول میں عبداللہ حسین اور شاعری میں شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے برابر آنا چاہتے ہیں۔

ورنہ” آپ کے شاعرمیں پرانے شعراء کاعکس نظرآئے گا۔”ورنہ” کالج کے ایک پروفیسر کے لیکچر نہیں بلکہ شاعر کے دلی جذبات کی عکاسی ہے۔

اس سے پہلے بھی سمیع نوید نے ایک شاعری کی کتاب لکھی۔جو”ترے خواب سے مرے خواب تک” کے نام سے مشہور ہوئی۔”ورنہ” اس کی دوسری تخلیق ہے جواس نے تقریباً پانچ سال کے لمبے عرصے کے بعدلکھی ہے۔

Allama Muhammad Iqbal

Allama Muhammad Iqbal

سمیع نوید جوان ہے اور اس کا جذبہ اور ولولہ بھی جوان اور متحرک ہے عزائم پختہ بلند اور حوصلے جواں ہیں۔ سمیع نوید نکتہ رس ہی نہیں بلکہ دوربین بھی ہے جس کا اظہار اسکی شاعری میں جابجا موجود نظر آتا ہے جیسا کہ وہ اپنے ایک حمدیہ شعر میں کہتا ہے۔

نشان لاکھ سہی، بے نشان وہ رہتا ہے خبراُسی کو ہے اپنی کہاں وہ رہتا ہے
ایک اور شعر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے۔
اسے جو ڈھونڈنا چاہو تو دورمت جائو یہ دل بھی اُسکی جگہ ہے یہاں وہ رہتا ہے
اسی طرح نعتیہ شعر میں کہتا ہے۔
کتنا پُر نور ہے آج شب کا جمال ہے آج معراج ہے آج دل کو سنبھال
مری امید بھی تووہی ذات ہے جس نے بخشا مدینے کواوجِ کمال
غزل کے شعر میں کہتا ہے۔
بنتے عیسیٰ ہیں مسیحائی سے محروم بھی ہیں سارے آدم ہیں یہاں اور کوئی آدم سان ہیں

اسی غزل کے دوسرے بند میں کہتا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے۔

یہ تو کہنے کی ہے اِک بات کہ میں ایسا نہیں
حسن کی راہ میں ہر شخص پھسل جاتا ہے۔

”ورنہ” یقینا شاعری میں اچھا اضافہ ہے کتاب پڑھیے یقینا آپ کو لطف آئے گا۔ یہ تو میرے خیالات تھے آپ کو اپنے خیالات نظر آئیں گے۔

Mazhar Shah

Mazhar Shah

تحریر: سید مظہر کاظمی
0308.7874799