بلوچستان: صحافیوں کو خطرات کا سامنا

Journalists

Journalists

کوئٹہ (جیوڈیسک) بلوچستان میں پر تشدد واقعات تسلسل کے ساتھ ہوتے رہے ہیں اور ان واقعات کی کوریج کرنے والے کیمرہ مین عموماً سکیورٹی فورسز اور امدادی تنظیموں کے کارکنوں سے بھی آگے نظر آتے ہیں مگر اُن کی یہ پیشہ وارانہ مصروفیت بعض کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔

نجی ٹی وی چینل سے وابستہ کیمرہ مین عبدالرزاق کو بچپن سے ہی کیمروں سے لگاؤ رہا ۔۔۔ انھوں نے 2010ء میں میڈیا کے شعبے میں ایسے وقت قدم رکھا جب یوم القدس کے حوالے سے کوئٹہ میں ایک ریلی پر خودکش حملے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔۔۔۔ اس سانحے کے بعد سے ہی گھر والے عبدالرزاق پر زور دے رہے ہیں کہ وہ یہ شعبہ چھوڑ دے۔

’’مجھے یہ شعبہ شروع سے ہی پسند تھا، پہلے سے ہی میں چاہتا تھا کہ اس فیلڈ میں رہوں اور اس میں کام کروں لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہے تاکہ حادثات کا شکار نہ ہوں۔ ‘‘

بلوچستان کو صحافیوں کے لیے ملک میں خطرناک صوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ کارکن صحافیوں کی تنظیم بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں صوبے میں پرتشدد واقعات، ٹارگٹ کلنگ اور حادثاتی واقعات میں اب تک 43 صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پرتشدد واقعات کی کوریج کے دوران صحافیوں پر نیوز چینل انتظامیہ کی جانب سے ’’بریکنگ نیوز‘‘ یا سب سے پہلے خبر دینے کے لیے بہت دباؤ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے بہت سے صحافی اور کیمرہ پرسن ضروری احتیاطی تدابیر کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔

’’یہاں کشیدہ حالات کو دیکھ کر میں نے خود بھی یہ محسوس کیا ہے کہ کوریج کے دوران احتیاط کرنی چاہیئے اور اس سلسلے میں ہمیں تربیت بھی دی گئی ہے مگر اس کے باوجود بھی لوگ احتیاط نہیں کرتے۔۔۔ میں دوستوں کو بھی منع کرتا ہوں کہ دور سے کوریج کریں کیونکہ کیمروں میں زوم کرنے کا آپشن موجود ہے‘‘۔

حماد سیاپاد بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر ہیں ان کے مطابق اگست کے اوائل میں جب کوئٹہ کے سول اسپتال میں خودکش حملہ ہوا تو اس میں بھی دو کمیرہ مین مارے گئے۔

’’علمدار روڈ کا واقعہ ہوا اور اس کے بعد ہم نے جوائنٹ میڈیا ایکشن کمیٹی کے ذریعے ایک ایس او پی بنایا کہ آئندہ کسی بھی بم دھماکے کے واقعے میں جب تک سکیورٹی فورسز علاقے کو کلیئر نہ کریں ہم وہاں نہیں جائیں گے شروع میں تو اس پر عملدرآمد ہوا مگر بعد میں ان ہدایات کو چھوڑ دیا گیا جو کہ ہمارے اپنے تحفظ کے لیے بنائی گئیں تھیں‘‘۔

صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ جہاں یہ ایک صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں احتیاط برتے وہیں میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو بھی چاہیئے کہ اُن کے لیے سب سے پہلے خبر کے حصول کی بجائے صحافیوں کا تحفظ اولین ترجیح ہو۔