بلوچستان میں تحقیقی صحافت کا فقدان

Journalism

Journalism

تحریر : علی نواز ابڑو
صحافت عوامی مسائل کواجاگر کرنے اور معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی کرنے کانام ہے اس پیشے سے وابستہ افرادکوصحافی کے نام سے مخاطب کیاجاتاہے نیزصحافی کومعاشرے کا آئینہ داربھی کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی پیشہ وارنہ خدمات کواحسن انداز میں سرانجام دیکرمعاشرے میں تبدیلی لانے میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور اس تبدیلی کولانے کیلئے مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ تحقیق کوبھی پروان چڑھانے میں اہم کرداراداکرتے ہیں اگرتبدیلی مثبت سوچ والی تحقیق کے ساتھ کی جائے توصحافت کے مقدس پیشے کا حق ادا کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے اوراسی سوچ ٫فکراورفلسفے والے کوحقیقی صحافی کہا جاتا ہے اور اگرتبدیلی بغیرتحقیق کے کی جائے تومثبت اثرات کی بجائے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ تحقیق کے بغیر صحافی کی خبر بھی نامکمل تصورکی جاتی ہے مگربلوچستان میں منشی گری کرنے والے اپنے مفادات کوعزیزرکھنے والے اور نام نہادجعلی ونقلی صحافیوں کاظہور مقدس پیشے پرکاری ضرب لگنے کے مترادف جبکہ تحقیقی صحافت کے فقدان میں معاون ومددگار ثابت ہورہا ہے۔ موجودہ دورمیں صحافتی تحقیق نام کی حدتک محدودہوکررہ گئی ہے اپنے آپکوصحافت کاسمندرکہنے والے ملک کے بڑے بڑے سینئر نام بھی اندرسے کھوکھلے اورتحقیقی صحافت کی معلومات سے بھی ناواقف ہیںپھریہ دعوی کہ ہم معاشرے میں تبدیلی لانے میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔

محض جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیںاسکی مثال بول نیوزچینل میں جانے والے صحافیوں کی دی جاسکتی ہے کہ ایگزیکٹیوکمپنی میںجانے والے مکروہ دھندے سے ناآشنا تھے اورملک کے صحافی بھی اس دھندے سے لاعلم رہے جبکہ نیویارک ٹائمز میں کام کرنے والے صحافی نے پاکستان ٫دبئی اورفرانس کے دورے کرکے اتنے بڑے اسکینڈل کوبے نقاب کیاجوپاکستان کی صحافی برداری پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیاواضح رہے کہ بلوچستان جہاں دیگرمسائل میں پسماندہ ہے وہی پر تحقیقی صحافت کے فقدان کابھی شکارہے اسکی کئی وجوہات ہیں جن میںچند قابل ِ ذکر ہیں کہ یہاں صحافت کومقدس مشن کی بجائے کرپشن اوراقتدارکی خوشامد کیلئے عوام کوپسِ پشت ڈال کروقف کیاجاتاہے۔

پروفیشنل ازم کی بجائے یلوازم کوفروغ دے کرنئے ٹیلنٹ ٫نئے سوچ اورنئے جذبے کوآگے آنے سے روکاجاتاہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص سوچ ٫مکتبہ فکریاگروہ کوفوائد دیکرذمہ داراوردیانت دارافراد دلبرداشتہ ہوکرتحقیقی صحافت سے لاتعلقی اختیارکرلیتے ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے بیشتر صحافی ذمہ درانہ صحافت سے بھی عاری ہیں کیونکہ وہ اداروں ٫ایم پی اے ٫ایم این اے اورعلاقے کے نوابوں ٫سرداروں اوروڈیروں کی منشی گری کرنے پرفخراورجیب گرم ہونے پر تعریفی بیانات چلاکرزرد صحافت کوپروان چڑھا نے کا کام کرتے ہیں اورانکے خلاف ہونے والی ہرخبرکوبھی روک دیتے ہیںاورجوانکے مکروہ دھندوں کوبے نقاب کرنے کیلئے تحقیقی راستہ اختیارکرتے ہیںانکوپہلے توپیسوں کی آفردیکر صحافی کے ضمیر کوخریدنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Journalists

Journalists

اگر صحافی اپنے پیشے سے مخلص ہے تو انکی آفرکوٹھکرادیتا ہے اورپھراسکوڈرانا ٫دھمکانا٫اغواء کرنا اورجان سے مارنے کے علاوہ مختلف اندازمیں پریشر میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ رپورٹ شائع کرنے سے گریز کرئے نیزبلوچستان میںصحافیوں کودرپیش خطرات جن میں ڈرانہ ٫دھمکانہ ٫اغواء کرنا قتل کرنا مختلف اندازمیں پریشر میں لانا بچوں ٫عورتوں اوراہل خانہ کو نقصان پہنچانا نیزصحافتی خدمات سے روکناجیسے مسائل کاسامنا ہے جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوتحقیقی صحافت سے عدم دلچسپی اختیارکرکے ٹی وی ٫اخبار یا نیوزایجنسی کے کارڈپر توجہ مرکوزکرکے شہرت کے حصول کا متلاشی اوراپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے تحقیقی صحافت سے راہ فراراختیارکرتاہے اورجوصحافی سرکاری ملازم ہوتے ہیں انکومحکمہ کے افسران کی جانب سے آگاہی کاپروانہ مل جاتاہے کہ آپ نے ملازمت کرنی ہے صحافت نہیںجبکہ صوبے میں تحقیقی صحافت کے فقدان میں ایک اہم وجہ صحافیوں کی ذ ہنی وعملی تربیت نہ ہونابھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر صحافی تحقیقی صحافت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ انھیں علم نہیں ہوتاکہ تحقیقی صحافت کس طرح کی جاتی ہے۔

نیزبلوچستان میں آزادی صحافت کانام ونشان تک نہیںیہاں جس کی لاٹھی اسکی بھینس والی کہانی چل رہی ہے جب آزادی صحافت ہے ہی نہیں تو تحقیقی صحافت کا کیاوبال ہوگا تحقیقی صحافت تو دور کی بات ہے یہاںپرتو حق اورسچ لکھنے والوں کو بھی طرح طرح سے اذ یتیں دی جاتیں ہیںانہی خدمات کی پاداش میں بلوچستان کے42سے زائد صحافیوں کوانکی خدمات کی انجام دہی میں قتل کردیاگیا ہے ایک لحاظ سے بلوچستان صحافیوں کیلئے ریڈزون ہے یہاں تحقیقی صحافت کرنا آتش فشاں کے دھانے پر چلنے کے مترادف ثابت ہوگامگران مسائل کے باوجود تحقیقی صحافت پرکام کرنے کی اشد ضرورت ہے ملکی سطح پرتحقیقی صحافت کیلئے سیمینارتومنعقد کیئے جاتے ہیں۔

مگر عملی طورپر سکھانے کاکوئی خاص احتمام نہیں کیاجاتا جس کی وجہ سے مقدس پیشے صحافت کومس یوزکرکے نام نہاد صحافیوں نے اسے کاروباربنادیاہے جسے روکنے کی فوری ضرورت ہے موجودہ دورمیںملکی سطح پر تحقیقی صحافت کوپروان چڑھانے کیلئے انکے تقاضے پورے کرنیکی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تاکہ اس مقصد صالحہ کومکمل کرنے کیلئے صحافی اپنی بے پناہ محنت ٫لگن اور سچائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے اپنی جان کی بازی لگاکراس مقدس مشن کوپایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔

Ali Nawaz Abro

Ali Nawaz Abro

تحریر : علی نواز ابڑو
0333.7945260
alinawazabro2009@gmail.com