بد بختو کیوں عذاب الہی کو دعوت دیتے ہو

Syria Children

Syria Children

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
سارا عالم کفر متحد ہو کر مسلمانوں اور اسلام کے در پے ہے اور مسلمانوں کی تباہی کے سامان اور پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے فلسطین کی مساجد پر اسرائیلیوں نے اذان پر پابندی عائد کر ڈالی ہے جس پر پورا فلسطین سراپا احتجاج ہے ٹرمپ انتظامیہ ڈرون طیاروں کے حملوں کو پوری دنیا میں بغیر کسی اجازت کے حملہ کر ڈالنے کا پلان رکھتی ہے حالانکہ پہلے اوبامہ دور میں اس کے حملوں کو پینٹاگون کی اجازت سے مشروط کر رکھا تھا۔

اب یہ کھلی چھوٹ مسلمانوں کو ہی تباہ وبرباد کرنے کے لیے ہی دی گئی ہے بھارت میں گائے کے ذبح کرنے پر موت کی سزا کے نفاذ کی تیاریاں کی جارہی ہیں مودی نے اسلام دشمن ہندو یو گی آدیتا ناتھ کو اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بناڈالا ہے اس سب سے بڑی بھارتی ریاست میں انتخابات کے دوران مودی اور ان کے حواریوں کا واضح اعلان کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہیںاور یہ کہ مسلمان بھارت سے نکل جائیں۔تاہم اگر سامراجی اور تمام یہود وہنود اکٹھے ہیں تو 43اسلامی ممالک کی افواج بھی اکٹھی ہو کر ایک مشترکہ فوج بنانے کی بنیاد رکھ رہی ہیںاس پر طرہ ٔامتیاز یہ کہ اس مشترکہ فوج کی قیادت شہیدوں کے وارث راحیل شریف کو ہی سونپی گئی ہے جس پر پاکستانی حکومت کو بھی کوئی اعتراض نہ ہے مگر کسی طرح ایران و دیگر ایسے مسالک کے ممالک کو بھی اس اتحادمیں شامل کرلیا جائے تومسلمانوں کی مکمل حفاظت کا انتظام ہو جائے گا۔

عالم کفر کے منہ پر ایسا زناٹے دار تھپڑ لگے گا کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آجائے ۔خالصتاً حق کو باطل کا وہ معرکہ بپا ہو گاکہ دنیا یاد رکھے گی ۔پوری ملت اسلامیہ صرف اور صرف خدائے لم یزل اور پاک لفظ اللہ اکبر پر ہی اکٹھی ہو سکتی ہے عالم اسلام کی افواج سامراجیوں اور ہنود ویہود کی شرارتوں سے مکمل بچائو اور اگر وہ اپنی ناپاک سازشوں سے باز نہ رہیں تو ان کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہی اکٹھی کی جارہی ہیں۔اسی طرح اگر تجارت بینکنگ ،معیشت ،ثقافت بھی مشترک ہو جائیں تو سو نے پر سہا گہ ہوگا۔مگر اس کے لیے اشد ضروری ہے کہ سارے عالم اسلام کے مسلمان اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے ایک تحریک برپا کردیںاور ہر جگہ شیعہ ،سنی ،دیو بندی ،بریلوی ،اہلحدیث وغیرہ محمد عربیۖ کے پرچم تلے جمع ہو کر ایک خدا ایک رسول ایک قبلہ ایک قرآن اور ایک ہی دین پر اکٹھے ہو کر جدو جہد کریں مزید ضروری امر یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کے سبھی ممالک اپنے ہاں اعلیٰ کردار کے حامل جری اور دلیر نیز اسلام کی صحیح جہادی فکر سے سرشار کرپشن سے عاری افراد کو برسراقتدارلائیں جس کی ابتدا بھی پاکستان سے کرنا ہوگی کہ یہ واحد ایٹمی اسلامی ملک عالم اسلام کے ممالک کا محافظ بن سکتا ہے۔

اس طرح کسی سامراجی کو پھر کسی اسلامی ملک میں گھسنے کی جرأت نہ ہو گی پاکستانی فوج تو در اصل سارے عالم اسلام کی ہی بربنائے دین مشترکہ فوج ہے مگر افسوس کہ یہاں کبھی سیکو لرکبھی اسلامی سوشلسٹ اور کبھی نام کے مسلمان اورعملاً کسی بھی کام کی اہلیت نہ رکھنے والے لوگ برسر اقتدار آجاتے ہیں تو ہمارا دینی تشخص بھی دیگر اسلامی ممالک کے اندر مجروح ہو کر رہ جاتا ہے مگر عالم اسلام تو دولت سے مالا مال ہے صرف برونائی کے بادشاہ کے سینکڑوں محلات ایسے ہیں جہاں سونے کی ٹائلیں لگی ہو ئی ہیں اگر صرف انہیںہی ہماری برسر اقتدار قیادتوں کے باکردار ہونے کا اعتبار آجائے تو وہ صرف ایک محل میں نصب شدہ ٹائلوں کے برابر ہی ہمیں امداد دے ڈالیں تو ہمارا پورے سال کا بجٹ پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں کسی سے سودی بھیک مانگنے کی بھی ضرورت نہ پڑے گی ۔اسلامی ممالک کے عوام شہادتوں کے ذریعے قربانیاںدے رہے ہیں اور ہمارے ہاں بھی پاک افواج اور عوام کئی سالوں سے عظیم جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں مگر افسوس کہ ہماری تقریباً سبھی نام نہاد بڑی سیاسی جماعتیں ،اقتداری ہوں یا اپوزیشنی ان کے قائدین بیرونی ممالک کی امداد کے طالب رہتے ہیں تاکہ اقتداری ہما انہی کے سر پر بیٹھا رہے ۔اقتدار کے طالبین یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ سامراجی ممالک کو جو بھی شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہو گا وہی مقتدر ٹھہرے گا ہو سکتا ہے یہ سب کچھ درست ہی ہو کہ پہلے ایسا کئی بار ہو چکا ہے ۔حتیٰ کہ رات کے اندھیروں میں بھجوائے گئے شوکت عزیز جیسے بیرون ملک کی سکونت رکھنے والے بھی قابض ہو چکے ہیں۔

مگر دیکھیے تو سہی کہ ختم نبوت کی تحفظ کی تحریک تو 1953میں ایک ہی دن دس ہزار مسلمانوں کو ٹینکوں کے نیچے روند ڈالنے کے باوجود کامیاب نہ ہوسکی مگر جب خدا کی مرضی شامل حال ہوئی تو ربوہ (حال چناب نگر)کے اسٹیشن پر نشتر کالج ملتان کے طلباء کو مارا پیٹا گیا تو راقم الحروف اور نشتر کالج یونین کے دیگر عہدیدران کی مشترکہ پریس کانفرنس ملک بھر کے اخبارات اور بیرونی میڈیا کی لیڈ سٹوری بنی تو اسی روز ہی ملک بھر کے گلی کوچوں دیہاتوں شہروں میں تحریک چل پڑی جو اس وقت کے حکمران کے بھی کنٹرول سے باہر جا نکلی تبھی انہیں 7ستمبر 1974کو مشترکہ قومی اسمبلی کی قرارداد سے غیر مسلم اقلیت قرار دینا پڑا۔

اب بھی معمولی غیرت ایمانی کا شعلہ ہی اللہ اکبر تحریک کو جنم دے سکتا ہے اور آئندہ انتخابات میں باکردار افراد منتخب پا جائیں گے پوری دنیا میں حرمت رسول کے لیے جان بھی قربان ہے کے نعرے لگاتے جلسے جلوس ہورہے ہیں مگر پاکستانی سربراہان ا ور بیورو کریٹس پٹرول کی قیمتیں ہی ہر پندرہ دن بعد بڑھائے جارہے ہوں جس سے تمام دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیںعوام اور سیاستدان صرف ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دست گریبان ہو رہے ہوں تو کفریہ طاقتیں بشمول ہماری مفاد پرست قیادتوں کے عذاب الہی کا انتظار کریں کہ یہی سنت لم یزل ہے تاہم مسلمان اس عذاب الہی سے بچنے کے لیے اللہ اکبر تحریک چلا کر بذریعہ ووٹ تمام حکومتی و دیگر اداروں کی اصلاح آسانی سے کرسکتے ہیں۔وما علینا الا البلاغ۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری