بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ

Raja Gidh

Raja Gidh

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
آپ کو عورت کے دل کی تلاش ہے، باکرہ جو ہوتی ہے سر جی اس کے پتن سے ابھی کسی نے پانی نہیں پیا ہوتا،وہ جسم اور دل ایک ہی جوئے میں ہارتی ہے۔

اردو ادب کی معروف مصنفہ بانو قدسیہ تاریخ رقم کرکے 88 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملی ہیں ۔ ان کے انتقال پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غمگین ہے ۔بانو قدسیہ اردو ادب کا ایک عہد تھیں. بانو قدسیہ کے لکھے گئے ناول اور افسانے آج بھی پڑھنے والوں میں انتہائی مقبول ہیں اور ان سے اختلاف کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو ادب میں انہوں نے اپنی تحاریر کے گہرے نقوش چھوڑے.بانو آپا کا لکھا ہوا شہرہ آفاق ناول “راجہ گدھ” سی ایس ایس کے کورس میں بھی شامل ہے.یقینا بانو قدسیہ کی مہارت ان کی لکھنے کی خداداد صلاحیتوں اور تحاریر کو ایک خوبصورت اسلوب میں ڈھالنے کی طاقت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا بانو آپا کے ناول ہمارے دل و دماغ پر نقش ہیں اور ان دنوں کی خوبصورت یادوں میں سے ایک ہیں.بانو قدسیہ نے لکھنے کا جو اسلوب اور انداز چنا وہ 70 کی دہائی کے بعد کے پاکستانی معاشرے کی اس نفسیات کی واضح نشاندہی کرتا ہے جس کے تحت افسانہ و ادب میں بھی اسلاماءزیشن اور تہذیبی نرگسیت کا رنگ ڈال دیا گیا تھا. انہوں نے کئی کتابیں لکھیں لیکن ان کا ناول راجہ گدھ آ ج بھی ترو تازہ اور بھٹکے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے راجا گدھ کا نام آئے تو ذہن کے نہاں خانوں میں بانو قدسیہ کی شبیہ نہ ابھرے، ذیل میں ہم بانو قدسیہ کے اسی ناول کا ایک اقتباس پیش کر رہے ہیں جو قارئین کیلئے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

زندگی کو پتنگ سے تشبیع دیتے ہوئے بانو قلم طراز ہیں۔ “زندگی اور پتنگ بعض دفعہ انسان کو ایک ہی طرح خوار کرتے ہیں – ایک ہی طرح fantacise کرتے ہیں ۰۰۰۰۰ ایک ہی طرح اپنے پیچھے دوڑاتے ہیں ۰۰۰۰۰ایک ہی طرح خوشی سے پاگل کرتے ہیں اور ایک ہی طرح مایوس کرتے ہیں ۰۰۰۰۰ لیکن نہ پتنگ کو کوئی آسمان میں اڑنے سے روک سکتا ہے نہ زندگی کو چلنے سے – ” اور دو محبت بھرے دلوں کو یک جان ہو جانے کی مثال دیتے ہوئے بانو لکھتی ہیں ؛کچھ لمحے بڑھے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کو ئی کس شخص کاسیارابنایا جائےگا – جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر طوس مایا میں اور مایا گیس میں بدل جاتا ہے ۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ہوتی ہے اس وقت اس قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کی سوئیوں تباہ کردی جاتی ہیں – پھر جو وقت پہلے کا رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے ۔ جو موسم ، جو رت، جو دن پہلے قلب میں طلوع ہوتا ہے وہ دوسرے آئینہ میں منعکس ہوتا ہے۔

Bano Qudsia

Bano Qudsia

دوسرے قلب کی اپنی زندگی رک جاتی ہے ، اس کے بعد اس میں صرف باز گشت کی آواز آتی ہے ” راجہ گدھ سے ایک اور خوبصورت اقتباس “قیام پاکستان کے بعد اس گاؤں میں کئی رنگ کے پکھیرو آباد ہو کئے تھے ، بڑے لونگ اور ساتواں ناک والی راجپوتنیاں ، گول گول دپنوں والی کشمیرنیں ، چوڑے طباق والی مٹی رنگ جاٹ عورتیں ، چکنی جلد پر نارنگی کے چھلکے ملنے والی مغل زادیاں ، خوشامد سے دوہری ہونے والی میراثنیں ، پلُمیں صحن کا رنگ بدل دینے والی کے زئینین ، ناپ تول کے تکڑی کے بات جیسی زندگی بسر کرتی شیخانیاں ، جلدی ڈھل جانے والی زرد زرد آرائنیں استرئیاں ، کھلی بیسن سے نہیائی دھوئی گجرنیاں ، چوڑے چھنکابے اور طعنے دینے والی مسلمین ” راجہ گدھ سے ایک اور اقتباس ”آپ سر جی غلط عورتوں کے پیچھے وقت ضائع نہ کریں آپ کو چاہیے ایک باکرہ لڑکی ، طیب دوشیزہ جو آپ کو سیدھا راستہ دکھا سکے“۔ باکرہ کیوں امتل؟ ”آپ کو عورت کے دل کی تلاش ہے، باکرہ جو ہوتی ہے سر جی اس کے پتن سے ابھی کسی نے پانی نہیں پیا ہوتا،وہ جسم اور دل ایک ہی جوئے میں ہارتی ہے ۔ آپ کے بڑے احسان ہیں مجھ پر ، خدا قسم اگر میں پہلے جیسی ہوتی تو فوراً آپ سے شادی کرالیتی“۔ اس وقت وہ کسی مصری راہبہ کی طرح بڑی پر شکوہ لگ رہی تھی۔

”یہ جسم اور دل بڑے بیری ہیں ایک دوسرے کے سرجی۔ جسم روندا جائے تو دل کو بسنے نہیں دیتا ، ان دونوں کو کبھی آزادی نصیب نہیں ہوتی۔ اللہ جانے کیوں میرے مولا نے ان کو ایک ہی ہتھکڑی پہنادی اور پتہ نہیں آپ سے میں کبھی کبھی کیسی باتیں کرنے لگتی ہوں؟ میں تو نہیں بولتی سرجی میرا تجربہ بولتا ہے ، مجھ کو تو باتیں کرنے کا ڈھنگ ہی نہیں ہے“۔

باغ میں شام آگئی، بہار کی خوشبوﺅں سے بوجھل شام۔ ہم دونوں کرگس جاتی کے شودر تھے ، کوئی بات ہمیں اندر ہی اندر آگاہ کر رہی تھی کہ وہ رابطہ جو اتنی دیر ہمارا بھار اٹھائے رہا اب ٹوٹنے والا ہے لیکن اس شام ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اچھی پہچان لیا اسی لیے ہمیں بچھڑنے میں مشکل پیش نہ آئی ۔ یہ ایک بات ہے کہ اس شام کے بعد ہم پھر نہیں ملے لیکن اگر ہم ملتے بھی رہتے ریڈیو سٹیشن میں ، سڑکوں پر ، بازاروں میں تو اس شام کے بعد ہر ملاقات اجنبیوں کی ملاقات ہوتی، ہم ایسے ہی ملتے جیسے چیونٹیاں اپنے اپنے رزق کا دانہ منہ میں لیے راستے میں ایک دوسرے سے دعا سلام کرتی ہیں اور پھر اپنی اپنی راہ چلی جاتی ہیں ۔ نہ کوئی ماضی کی یاد نہ کسی فرد کا وعدہ۔

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری