فروغ عطائیت میں ہاتھ کس کا ؟

Doctor

Doctor

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
کسی گائوں میں ایک حجام رہتا تھا جو ساتھ ساتھ جراحی کا کام بھی بڑی کامیابی سے کرتا تھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے اس گائوں نے ایک قصبے کا روپ دھار لیا اور ساتھ ساتھ اس حجام کے چرچے بھی چہار جانب پھیل گئے اب اس قصبے کے مین روڈ پر ایک ایم بی بی ایس سرجن نے ایک سرجیکل ہسپتال بنا لیا ۔اس کو تقدیر کا لکھا کہیں یاحجام کی خوش بختی کیونکہ سرجن صاحب نے جتنے آپریشن کئے وہ ناکام یا خراب ہو گئے اور حجام نے جتنے لوگوں کی جراحت کی وہ صحت یاب ہوئے۔

اب سرجن صاحب کو ایک ترکیب سوجھی انہوں نے فورا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں اس حجام کی شکائیت کر کے اس کا جراحی کا کام بند کروا دیا اور خود بھاری فیسوں کے عوضعوام میں موت بانٹنے میں آزادانہ مصروف ہو گئے ۔حجام کا کام اس لئے بند کر دیا گیا کہ اس کے پاس دگری نہیں تھی جبکہ ڈاکٹر صاحب کے پاس ڈگری کی شکل میں موت بانٹنے کا لائسنس موجود تھا حجام کی پوچھ گچھ کے لئے محکمہ موجود تھا جبکہ ڈاکٹر چونکہ کوالیفائیڈ تھا لہذا اس سے کوئی پوچھنے والا نہ تھا ۔بعینہ آج کل عطائیت کے خلاف قانونی ادارے حرکت میں ہیں ۔اور ہزاروں لوگوں کے کلینک یا شفا خانے بند کئے جا رہے ہیں اس میں کوئی عار نہیں ایسے ادارے جو انسانیت کے لئے نقصان دہ ہیں لازمی بند کرنے چاہئیںمگر پہلے یہ شناخت کریں کہ عطائیت کے زمرے میں آتے ہیں یا وہ مسیحائی کر رہے ہیں۔

Doctor

Doctor

ہم پہلے یہ فیصلہ تو کر لیں کہ عطائیت کو فروغ دینے کے اصل ذمہ دار کون ہیں ؟اور اصل عطائیت ہے کیا ؟اچھے اور انسان دوست ڈاکٹر صاحبان سے معذرت کے ساتھ مجھے یہ لکھنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ عطائیت کا فروغ بھی انہی ایم بی بی ایس ڈاکٹرزحضرات کی وجہ سے ہے اب آپ پوچھیں گے کیسے تو لیجئے ملاحظہ فرمائیں ،اس پاک سر زمین پر آپ ایسے ہزاروں ڈاکٹرز کو جانتے ہونگے جو سرکاری خزانے سے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ نان پریکٹسنگ الائونس بھی لے رہے ہیں مگر بڑے دھڑلے کے ساتھ پرائیویٹ کلینک بنا کر پریکٹس بھی فرما رہے ہیں ۔انکے لئے سرکاری اسپتال لاری اڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔جس طرح ایک بس کا ہاکر ادھر ادھر سے سواریاں پکڑ کر اپنی بس میں سوار کرواتا ہے اسی طرح ہمارے ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں بیٹھ کر مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینکس پر ریفر کر کے ان سے بڑی بڑی رقوم اینٹھ لیتے ہیں ۔اب ذرا سوچیں ڈاکٹر بھی وہی ، مریض بھی وہی ،اور ادویات بھی وہی ہوتی ہیں پھر بھاری بھرکم فیس کی بجائے اس مریض کو اسپتال ہی میں کیوں چیک کر کے میڈیسن نہیں لکھ دیتے صرف دو روپے کی پرچی میں قلم چلانا انہیں ذرا بھاری پر رہا ہوتا ہے۔

جس کی وجہ سے وہ پرائیویٹ بلا کر مریض کو قربانی کا بکرا گردانتے ہوئے اس سے فیس بٹور رہے ہیں ۔اسی پر اکتفا نہیں بلکہ مختلف میڈیسن کمپنیوں کے ساتھڈیل کر کے بیس فیصد سے پچاس فیصد تک کمیشن بھی اپنے کھاتے میں ڈلوا رہے ہیں ۔کسی نہ کسی پرائیویٹ لیبارٹری سے ڈیل کی صورت میں روپیہ بنائے چلے جا رہے ہیں ۔سرکاری اسپتال کا ایکسرے تک ان ڈاکٹرز کو قبول نہیں کیونکہ یہاں کمیشن نہیں مل پاتا ۔وہ بھی اپنی پسند کی جگہ سے کروانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اس کے علاوہ ایک ہتھکنڈہ اور بھی دیکھنے میں آیا ہے ان ڈاکٹر صاحبان کا وہ یہ کہ پانچ چھ یا بسا اوقات اس سے بھی زائد عطائیت زدہ اسپتالوں کے بورڈز پر اپنا نام لکھوا کر وہاں سے ہزاروں روپے ماہوار حاصل کر رہے ہیں ۔جن مسیحائوں کا مطمع نظر صرف اور صرف حصول زر ہو ان کے بارے میں آپ خود سوچیں کہ کیا یہ لوگ عطائیت کو خود فروغ نہیں دے رہے ؟کسی عطائی کے بورڈ پر اپنا صرف نام لکھوانے کے بیس سے پچاس ہزار روپے جب ایک ڈاکٹر وصول کرے گا اور خود وہاں بیٹھے گا بھی نہیں تو کیا وہ عطائی جو ماہانہ بھتہ دے رہا ہے اس کے بدلے آزادانہ انسانی جانوں کا زیاں کرے گا یا نہیں ؟وہ آزادی کے ساتھ انسانوں کی بھیڑ بکریوں کی طرح چیر پھاڑ کرے گا یا نہیں ؟تو پھر فروغ عطائیت میں ہاتھ کس کا ہوا؟

Doctor Fee

Doctor Fee

ایک شخص جو بارہ سے چودہ ہزار ماہوار کما رہا ہو جس کی روزانہ کی کمائی ساڑھے تین سو سے ساڑھے چار سو تک ہو اسے یا اس کے بچے کو بخار تک ہو جائے تو وہ بہت زیادہ پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ جب وہ کسی بڑے ڈاکٹر کے کلینک پر جائے گا تو ڈاکٹر صاحب کی فیس پانچ سو سے شروع ہو گی جو ہزار روپے تک بھی ہو سکتی ہے ۔اب ڈاکٹر صاحب کے کلینک کے استقبالیہ پر ہی اس شخص سے فیس لیکر اسے ایک ٹوکن تھما دیا جائے گا پھر باری آنے پر (جو ایک گھنٹے سے چھ گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں )اس کا چیک اپ کیا جائے گا ۔چیک اپ کے بعد ڈاکٹر صاحب ٹیسٹ تجویز فرمائیں گے جو کم از کم تین سو اور زیادہ سے زیادہ اٹھارہ سو تک بھی ہو سکتا ہے ۔ٹیست کی رپورٹ کے بعد مسیحائے محترم دوائی تجویز فرمائیں گے جو اڑھائی سو سے ساڑھے سات سو روپے تک آئے گی اب ذرا سوچیں جب معمولی بخار کم از کم ایک مزدور کو ایک دن میں گیارہ سو روپے میں پڑے گا اور دیہاڑی علیحدہ ٹوٹے گی تو پھر چار و ناچاروہ بیچارا محلے یا گلی میں بیٹھے ہوئے کسی زیر تعمیر ڈاکٹر کے پاس ہی جائے گا جس کا اخلاق بھی اچھا ہو گا۔

چیک اپ بشمول دوائی پچاس روپے سے اسی روپے تک ہو گی اور وقت بھی بچے گا ۔اگر یہی مسیحا صاحبان (ایم بی بی ایس )اپنی کوالیفکیشن کو ملحوظ رکھنے کی بجائے انسان ہونے کے ناطے انسانیت کو اولیت دیں پہلے تو سرکاری اسپتالوں میںب اچھے طریقے اور اخلاق و مروت سے مریض کو دیکھیں تمام ادویات اسپتال کے اندر سے دیں باہر کی یا کمیشن کی ادویات کو لعنت سمجھیں تو میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کوئی شخص کبھی عطائی کی طرف جانا تو درکنار اسے دیکھنا پسند نہ کرے گا ۔

M H. Babar

M H. Babar

تحریر ؛ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Moile;03344954919
Mail ;mhbabar4@gmail.com