بشارالاسد کو عبوری دور کے بعد اقتدار چھوڑنا ہو گا: شامی اپوزیشن

Bashar al-Assad

Bashar al-Assad

شام (جیوڈیسک) شامی حزب اختلاف کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی نے روس اور امریکا کے درمیان جنگ زدہ ملک کے مستقبل کے بارے میں ایسے کسی بھی سمجھوتے کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو اس کے پیش کردہ انتقال اقتدار کے عبوری منصوبے کے برعکس ہوگا۔

حزب اختلاف کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی لندن میں شام میں جاری بحران کے تصفیے کے لیے اپنا ایک نیا نقشہ راہ ( روڈ میپ) پیش کر رہی ہے۔اس کے تحت مجوزہ عمل چھے ماہ کے مذاکرات کے دوران شروع ہوگا اور ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دی جائے گی جس میں حزب اختلاف ،اسد حکومت اور سول سوسائٹی کی نمائندہ شخصیات شامل ہوں گی۔اس مجوزہ منصوبے کے تحت صدر بشارالاسد کو چھے ماہ کی مدت پوری پونے پر اقتدار چھوڑنا ہوگا۔اس کے بعد عبوری انتظامیہ اٹھارہ ماہ کے لیے ملک چلائے گی اور پھر عام انتخابات ہوں گے۔

اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے عمومی رابطہ کار ریاض حجاب نے بدھ کے روز لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ”اگر روسی اور امریکی ایسے کسی منصوبے پر اتفاق کرتے ہیں جو شامی عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں ہوتا تو پھر ہم بھی اس کو قبول نہیں کریں گے”۔

”انھوں نے کہا کہ اس عبوری دور میں بشارالاسد کو چھے ماہ یا ایک ماہ یا ایک دن کے لیے برسراقتدار رکھنے کا سوال ہی نہیں ہے۔

،روسی اور امریکی بخوبی اس بات سے آگاہ ہیں۔وہ شامی عوام کے موقف سے بھی آگاہ ہیں۔انھوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور وہ اپنے اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔جب تک شامی عوام کی امنگوں کو پورا نہیں کیا جاتا ہے،اس وقت تک شامی بحران کا کوئی پُرامن حل تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے کہا ہے کہ شامی حزب اختلاف کی تجاویز میں بشارالاسد کے بغیر شامی بحران کے پُرامن حل کی پہلی مرتبہ کوئی قابل اعتبار تصویر پیش کی گئی ہیں۔

جانسن نے بدھ کو ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ” اس ویژن کے قابل عمل ہونے کے لیے ابھی ایک موقع موجود ہے۔

اگر امریکی اور روسی مشترکہ طور پر جنگ بندی کراسکتے ہیں تو پھر جنیوا میں ایک مختلف انداز میں شامی فریقوں کے درمیان بات چیت شروع کی جاسکتی ہے۔شاید اس وقت تک تمام فریق اس منصوبے کو سمجھ جائیں۔

امریکا اور روس حالیہ دنوں میں شام میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کرتے رہے ہیں لیکن ان میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادی میر پوتین نے چین میں جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر نوے منٹ تک الگ سے ملاقات کی تھی اور اس میں شام میں جاری بحران کے حل اور جنگ بندی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا لیکن ان کے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا۔

تاہم اس کے باوجود بھی جنگ بندی کے لیے پس پردہ کوششیں جاری ہیں اور سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے منگل کے روز کہا کہ آیندہ 24 گھنٹے میں جنگ بندی کے بارے میں کوئی سمجھوتا ممکن ہے۔