بھکاری

Beggar

Beggar

تحریر : نجم الدین خان
بکاری کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ہی تصویر بنتی ہے کہ انسانوں سے مانگنے والا۔ ایک وقت تھا جب ضرورت مند اور معذور لوگ بھیک مانگتے تھے جو کسی کام کے قابل نہ ہوتے تھے۔ لیکن آج کل تو ایک کاروبار بن گیا ہے آب اصلی ضرورت مندوں، غریبوں اور کاروباریوں کے درمیان فرق کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ ایک دکاندار کے پاس ایک دن میں 4۔5 بھکاری بھیک مانگنے جاتے ہیں آب ظاہری بات ہے کہ وہ یا تو سب کو دے گا یا کسی کو بھی نہیں کیونکہ یہ پتا نہیں چلتا کون صحیح حق دار ہے کون کاروباری ہے۔ آج کل تو پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور ساتھ میں پوڈری اور چرسی لوگ بھی اس لباس میں گومتے پھرتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ عورتیں بھی بہت زیادہ ہے۔

مجھے تو ان عورتوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے اور مسئلہ یہ ہے کہ دوسری کاروباریوں نے ان معذور اور کمزور لوگوں کے حق پر قبضہ کرلیا ہے۔ اگر یہ کاروباری بھکاری نہ ہوتے تو ان معذوروں اور ضرورت مندوں کو ایک ہی دن میں اتنا کچھ ملتا کہ اس کا ان پیسے سے بہت کچھ ہوتا۔میرا تو سچ کہوں بالکل دل نہیں کرتا کہ ان بھیک کاریوں کو کچھ دے دو۔ ہمارے محلے میں ایک بھکاری جو ہر بدھ کے دن آتا ہے اور دروازہ ایسے کھٹکھٹاتا ہے کہ جیسے پیچھے کتے لگے ہوئے ہیں۔

گلی میں زور زور سے نعرے لگاتا ہے، اللہ، نبی کے نام پہ دے دو بیٹا۔ یہ آواز گھروں میں موجود مائیں جب سن لیتی ہے نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ پیش کردیتی ہے۔ اس طرح اللہ کے نام سے وہ کاروبار چلارہا ہیں۔ اس نے بھیک مانگنے کیلئے علاقے تقسیم کئے ہیں۔ اگر یہ ضرورت مند ہوتا یا کام کرنے کے قبل نہ ہوتا تو اس کو ضرورت پوری کرنی چاہیے نہ کہ وہ مکمل تقسیم کرلے کہ کونسے دن کہا جانا ہے۔اور میں اکثر دیکھتا ہوں کہ مانگنے والا صحت مند اور سلامت ہوتا ہے پھر بھی مانگتا ہے اگر اس کی جگہ کوئی کام کرلے اور عزت کی روزی کمالے تو کیا بہتر نہیں ہوگا؟ اور سب کہتے ہیں اللہ کے نام پر دے دو۔ تو انسان کو اس نام سے بھی حیا آجاتی ہے۔

دوسری طرف اللہ کے نام پر مانگنے والا ملعون قرار دے دیا گیا ہے۔ انسان کو اس سے بھی ڈر لگتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ بھی کسی دوسرے کے گناہ کا حصہ بن جاﺅں۔ ایک دن میں سبزی منڈی میں کچھ خرید رہاتھا کہ ایک بھکاری کے جانے کے ساتھ ہی دوسرا آیا وہ بھی اللہ کے نام سے بار بار مانگ رہا تھا حالانکہ اچھا بھلا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر اتنا تم اللہ سے مانگتے تو اس سے زیادہ دیتا، کیونکہ اللہ سب کا رازق ہے۔ اور مجھے تب سے بھکاریوں سے بہت نفرت ہونے لگی جب ہم نے درسی کتاب میں پڑھ لیا۔

”اللہ کے نام پر مانگنے والا ملعون ہے“، بھیک کاری اپنے لئے آتش دوزخ طلب کرتا ہے“۔

صحابہ گھوڑے پر سوار ہوتے اگر کوڑا گر جاتا وہ بھی کسی سے اٹھانے کو نہ کہتے کہ شاید میرا یہ عمل بھیک میں آجائے اور میں گناگار ہوجاﺅں۔ بیشک عزت، زلت اور روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اگر کوئی تندرست ہے تو اسے کام کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ اسی طرح دینے والے کے لیے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ایسے افراد کو دینا چاہیے اور ضرور دینا چاہیے جو ضرورت مند ہیں۔ جو ہاتھ نہیں پھیلاتے مگر ان کے گھروں میں فاقحے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔

Begging

Begging

ہرگز یہ مت سوچیں کہ کوئی نہ کوئی ان کو دیتا ہوگا بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور آپ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے۔ اس لیے اپنے محلے، علاقے اور پڑوسیوں کا خیال رکھا کریں۔ ان سے ملتے رہیں ان کے حالات سے واقفیت جانتے رہیں۔ کب کسے آپ کی ضرورت ہے آپ کو کوئی آکر نہ کہیے بلکہ آپ خود ان کے پاس جا کر ان کی مدد کردیں اور ایسے کریں کہ ان کے اعتماد اور مان کو ٹھیس بھی نہ پہنچے۔ یہ آپ کا اجر اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئے گا اور پھر اس اجر اور نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلات کو ختم کر کے آسانیاں اور آپ کے رزق میں برکت عطا کرے گا۔

تحریر : نجم الدین خان