حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کتنا ضروری ہے؟

Plant Tree

Plant Tree

تحریر : اختر سردار چودھری
حیاتیاتی تنوع کیا ہے ؟ یہ سمجھانا کافی مشکل ہے آپ غور کریں اربوں انسان ان حقائق سے ناواقف ہیں۔ سانس لیتے ، کھاتے اور پیتے یہ لوگ بے خبر ہیں کہ آکسیجن، خوارک اور پانی کہاں سے آتے ہیں؟اس سے زیادہ دکھ دینے والی یہ بات ہے کہ جو واقف ہیں ان میں سے اکثریت لاپروا ہے ۔پہلے حیاتیاتی تنوع کو سمجھیں ۔آسان لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے دم سے زندگی ہے یہ بھی کہ اس سے زندگی قائم ہے مثلا انسان کے لئے آکسیجن اور آکسیجن کے لیے پودے ،پودوں کے لیے پانی ،ہوا ،روشنی اسی طرح پانی، ہوا، بادل، بارش، ندیاں، دریا، سمندر گویا تمام اشکال کائنات ایک مخصوص عمل سے گزرنے کے بعد ہم تک پہنچتی ہیں۔یہ ایک زنجیر ہے اس سے سب جڑے ہیں حیاتیاتی تنوع اسی مخصوص عمل کو برقرار رکھنے کا کام سر انجام دیتا ہے۔جس سے انواع عالم ایک دوسرے کے کام آ رہی ہیں ۔اس بات کو سمجھنابہت ضروری ہے۔

کائنات میں موجود یہ پودے ، جانور، جاندار، پرندے، کیڑے مکوڑے، پہاڑ دریا، سمندر وغیرہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں سب میں ایک توازن ہے ، پودے انسان کے لیے ضروری ہیں ایسے ہی پودوں کے لیے انسان ، اور تمام نباتات ان سب نے ایک سرکل بنایا ہوا ہے چاہتے ہوئے اور ناچاہتے ہوئے سب ایک دوسرے کے کام آ رہے ہیں ، ان کی تعداد و مقدار میں ایک توازن ہے ،اسی توازن سے زندگی رواں دواں ہے ۔ان میں سے جب کوئی ایک قسم کم ہو جائے یا ناپید ہو جائے تو پوری انواع کو نقصان پہنچتا ہے ۔توازن کا بگڑنا حیاتیاتی تنوع ہے اور اسے روکنا ، یا توازن کو بگڑنے سے بچانے کے اقدامات کرنا انسان کی ذمہ داری ہے لیکن اس ناشکرے انسان نے اپنے ذاتی ، عارضی مفاد کی خاطر اس توازن کو بگاڑنے کے درپے ہے۔

کچھ سائنسدانوں کا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ موجودہ دور میں اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ جنگلات کے ختم ہونے اور پرند وں و چرند وں کے کم ہونے میں ہے کیونکہ ایسی صورت میں قدرتی آفات ( سیلاب۔آندھی۔طوفان) کا آنا لازمی ہے اور پھر انسانوں میں مہلک بیماریوں کا اضافہ یقینی ہے ۔ اس لیے حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کتنی ضروری ہے ۔اتنی ہی ضروری ہے جتنی زندگی ۔اسی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے حیاتیاتی تنوع کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔یہ دن ہر سال 22 مئی کومنایا جاتا ہے ۔اس دن کو منا نے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبل کے اجلاس منعقدہ 20دسمبر 2000کو کیا۔جبکہ اِسے منانے کا مقصد حیاتیاتی تنوع کے بچاؤ کا شعور بیدار کرنا اور اِس کے لیے اہم اقدامات کی ضرورت پر زور دینا ہے

Birds

Birds

حیاتیاتی تنوع کے لیے انگلش میں “بائیو ڈائی ورسٹی یا بائیالوجیکل ڈائی ورسٹی” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کرہ ارض پر ”موجودہ زندگی میں تنوع”۔اس سے مراد انسان ، حیوانات، پرندے ، کیڑے ، مچھلیاں اور درختوں سمیت کائنات کا ہر جاندار وجود ہے بلکہ اس میںبے جان بھی شامل ہیں جانداروں کی زندگی کو جو خطرات ہیں جن سے ان مختلف انواع کی بقا کو خطرہ ہے ۔حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کتنا ضروری ہے؟ اور یہ کس کی ذمہ داری ہے ؟ حیاتایاتی تنوع پر کنٹرول ، کائنات میں توازن ، دنیا سے نایاب ہوتی ہوئی درختوں ، پرندوں ، درندوں ، کیڑے مکوڑوں کی نسلوں کی حفاظت ، ان کا تحفظ انسان کی ذمہ داری ہے کیونکہ انسان کو اللہ تعالی نے خلیفہ بنایا ہے اور انسان ہی اشرف المخلوقات ہے اس کے علاوہ کائنات کے توازن میں بگاڑ کا سب سے زیادہ ذمہ دار بھی انسان ہے ۔اس لیے بھی کہ کائنات میں توازن کے بگاڑ سب سے زیادہ نقصان بھی اسی انسان کا ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں جانداروں کو انسان کا خاندان یا انسانوں کی طرح نوع کہا ہے۔

۔ سورہ انعام (آیت 38 ) کا مفہوم ہے ۔” اور زمین مین چلنے والے جانور اور دو پروں پر اڑنے والے (پرندے ) تمہاری طرح جماعتیں (خاندان) ہیں”۔دوسری طرف قرآن کی ایک آیت میں بہت واضح طور پر کائنات میں حیاتیاتی تنوع کے بگاڑ پیدا کرنے کی سزا بتائی گئی ہے ، ”زمین اور سمندر میں انسان کے ہاتھوں جو کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا نقصان اس کو اٹھانا پڑتا ہے ”اور اگر کوئی اس دنیا میں حیاتیاتی بگاڑ کے تحفظ کے لیے کوشش کرتا ہے تو اس کو اس عمل کااجر ملے گا ۔رسول اکرم نے فرمایا جو مسلمان کوئی درخت لگائے اور اس میں (پھل یا چارہ) انسان یا جانور کھائے تو بونے والے کے لئے وہ تا قیامت باعث ثواب (صدقہ) ہو گا ( راوی۔ حضرت جابر بن عبدللہ۔ مسلم) ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اگر کسی نے ایک پودا لگایا اس پودے کو انسان اور جانور جب تک کھاتے رہیں گے یا اس سے انسانوں کو فائدہ (سایہ کی صورت میں) ملتا رہے گا تو اس کا اجر اس شخص کو ملتا رہے گا۔اس وقت پاکستان میں حکمرانوں سابقہ اور موجودہ یا ان ذمہ داروں کی عدم دلچسپی ،احساس ذمہ داری نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں ،پرندوں، درختوں کی بہت سے اقسام ناپید ہو رہی ہیں مثلا ایک سینگھ والا گینڈا ، ایشائی شیر، وغیرہ تو شائد ناپید ہو ہی چکے ہیں

ان کے علاوہ سفید سر والی بطخ ،سبز کچھوے (خیال رہے کہ کچھوئوں کا عالمی دن ہر سال 23 مئی کو منایا جاتا ہے ) مارکو پولو بھیڑ ، اڑیال ، برفانی تیندوے وغیرہ کے ساتھ ساتھ پندرہ پرندوں ، درجن بھر مچھلیوں، اور اتنے ہی مزید جانوروں کی نسل کی بقا کو شدید خطرات ہیں ۔ اسی طرح بلوچستان میں زیارت ایک ایسا مقام ہے جہاں موجود جونیپر نسل کے طویل القامت درختوں کے جنگلات دنیا میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ تقریباً 51 ہزار 3 سو ہیکٹر پر پھیلے ان جنگلات میں 1 ہزار سے 5 ہزار سال تک پرانے درخت آج بھی موجود ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ اب یہ جنگلات تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 15 فیصد پرندے ، 23 فیصد Amphibians اور 48 فیصد کورل ریفز ، ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ختم ہونے کے دہانے پر ہیں۔” ایک محتاط اندازے کے مطابق سن 2050ء تک اس کرہ ارض پر پائے جانے والے کل جانداروں (جن میں پرندے ، درندے، آبی جاندار، درخت وغیرہ) کی تیس فیصد اقسام ناپید ہو جائیں گی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسان ہر سال کوئی ایک لاکھ چالیس ہزار انواع کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ حیاتیاتی تنوع یعنی ماحولیات میں ہونے والی منفی تبدیلوں کے تحفظ کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس قدر زیادہ ممکن ہو شجرکاری کی جائے ، فیکٹریوں اور گھروں کی گندگی پانی میں نا پھینکی جائے ، زہریلے دھوئیں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے ۔ جانوروں کے شکار پر پابندی لگائی جائے اور اس کو یقینی بنایا جائے۔

Muhammad Akhtar Sardar

Muhammad Akhtar Sardar

تحریر : اختر سردار چودھری