یوم سیاہ اور برہان وانی کا جنازہ

Burhan Wani-Funeral

Burhan Wani-Funeral

تحریر : ساجد حبیب میمن
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیاہے کہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار ہمدردی اور بھارت کے جبرو تشدد سے پردہ اٹھانے کے لیے یوم سیاہ منایا جائے ۔ضروری ہوگا کہ اس روز ملک بھر میں جلسے جلوس نکالیں جائیں اور ریلیوں میں بھرپور انداز میں شرکت کرتے ہوئے پاکستان کی عوام کشمیریوں سے اپنی محبت کا اظہار کرے یہ عمل بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ظلم وستم کو پوری دنیا کے سامنے لانے کے لیے ایک مثبت اقدام ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ایمبیسیوں کو لوکل میڈیا کے ساتھ اس سلسلے میں میٹنگیں کرنی چاہیئے تا کہ دونوں ادارو ں کے باہمی روابط سے پوری دنیا میں یہ بات عام ہو سکے کہ بھارت کی حکومت اور ان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کس درندگی کے ساتھ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزریاں کر رہے ہیں۔

دوسرہ مشورہ یہ ہے کہ ہر ایمبیسی کو چاہیئے کہ وہ ایک صفحے پرمشتعمل کشمیر پر بنیادی معلومات پرایک جامع رپورٹ تیار کروائے ،جس میں کشمیر کے بارے میں معلومات ہوں اس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا خلاصہ موجود ہواور یہ کہ بھارت کس انداز میں کشمیریوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کررہاہے ان تمام معلومات کو تحریری صورت میں چندایک صفحوں پر ترتیب دے کر اسے وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے ۔قائرین کرام اس سے قبل بھی آپ کی نظروں سے کشمیر کے حوالے سے میرا لکھا گیا مضمون بارہا بار گزرا ہو گا۔

میں اس سلسلے میں خود کو روک بھی نہیں سکتا،یہ ایک فطری جذبہ ہے کہ مجھے کشمیر اور ان تمام کشمیری بہن بھائیوں اور بچوں کے لیے لکھنا اچھا لگتاہے جو گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پاکستانی پرچم کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہیں۔کاش کے 1949میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سلامتی کونسل کی جانب سے جو قرارداد پا س ہوئی کا ش کہ اس قرارداد پر اسی دن سے عمل شروع کردیا جاتا جب لوہا گرم تھا کاش کہ یہ جذبہ جو کشمیر میں کبھی یوم سیاہ تو کبھی یوم شہدا کے نام سے ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اس روز بھی یہ ہی عالم ہوتا تو ہمیں لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے لاشے ،جوان بہنوں کی عصمت دری کے درجنوں واقعات اور بزرگوں اورجوانوں کے گولیوں سے چھلنی ہوتے سینے تو نہ دیکھتے پڑتے ،آج بھارت کا وزیراعظم اگر پاکستان کے وزیراعظم کے پاس انکی سالگرہ میں بغیر ویزے پاسپورٹ کے آجاتاہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے وہاں بھارت میں مسلمان ہونا ہی جرم ٹھرا ان کے سروں پر ٹوپیاں اور چہروں پر داڈھیاں ہی ان کی جان کی دشمن بن بیٹھی ہیں۔

Burhan Wani

Burhan Wani

ہم کبھی بھارت کو اپنا پسندیدہ ملک قراردینے میں اپنی پوری جان لڑا بیٹھتے ہیں تو کبھی بھارت کے ساتھ تجارت کے عوض لاکھوں کشمیریوں کی جان ومال کا سوداکربیٹھتے ہیں ۔فی الحال اس وقت بھارت خود بھی خوب پریشان دکھائی دیتاہے کیونکہ اس نے برہان وانی کی موت کے ساتھ دانستہ طور پر ایک ایسی بغاوت کو جنم دے ڈالاہے جس نے بھارت کی آٹھ لاکھ فوجیوں کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں وہ اس وقت کشمیریوں کے موجودہ رد عمل سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کی لاکھ رکاوٹوں کے باوجود برہان وانی کا جنازہ کشمیر ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی تاریخ کا تاریخی جنازہ ٹھرا تھا جس میں خوب مذاہمت کے بعد بھی لاکھوں کشمیریوں نے شرکت کی۔

جہاں تک میں سمجھتاہوں کہ کشمیر کی عوام کے لیے اور اس کی آزادی کے لیے جو جزبات کا سمندرہمیں میڈیا میں دکھائی دیتاہے اس کا محور صرف اور صرف عوام ہی ہے معذرت کے ساتھ شاید کہ یہ سیاستدان اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ان لمحات میں بھی نہیں ٹلتے جس کااندازہ آزاد کشمیر میں 21 جولائی میں ہونے والی انتخابی گھما گھمی سے لگایا جاسکتاہے کہ وہاں پر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں کس طرح ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں اور یہ کہ کس انداز میں وہ کشمیر میں بہنے والے لہو کو سیاست چمکانے کے لیے استعمال کررہے ہیں ۔مگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی اس میں کوئی دوراہے نہیں ہونا چاہے کہ کشمیر کبھی ہم سے الگ تھا اور نہ ہی بھارت ایسی گھناؤنی چال چل سکتا ہے۔

وہ کشمیریوں کی زندگیوں کے ساتھ نت نئے حربوں کے ساتھ کھلواڑ تو کرسکتاہے مگر کشمیر کی آزادی کے خواب ان کی آنکھوں سے چرانا ہندوبنیئے کا خواب ہی رہے گا،گو کہ اس بار عید بھی پاکستان اور کشمیر کی عوام نے مل جل کر بنائی ہے مگر چونکہ عید نت نئے تحائف اور نئے نئے کپڑے خریدنے کا نام بھی ہے اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کے معاشی حالات بھی ایسے نہیں ہے کہ وہ عید کی تمام خوشیوں کو اس انداز میں مل جل کربانٹ سکیں جیسے کسی آزاد ملکوں کی قومیں اپنی عیدوں کو منایا کرتی ہیں۔

Protest

Protest

کشمیر میں عید منانے والے کشمیری مسلمانوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے گھر کا کونسا فرد کل یا اس کے بعد ان کے پاس ہوگا بھی کہ نہیں ان کی زندگیوں کی کیا ضمانت جو اپنے حقوق اور الگ وطن کی آس میں اپنے گھروں سے ہی کفن پہن کر نکلتے ہو۔ کبھی کبھی تو یہ بھی سوچتا ہوں کہ آخر اس یوم سیاہ کومنانے کا فائدہ کس کو ہوگا کتنے ہی سالوں سے ہم یہ چونچلے کرتے چلے آرہے ہیں مگر نتیجہ یہ ہی کہ آج کشمیر میں اتنے مرگئے اور آج اتنے افراد قید کرلیئے گئے خدارا اس ہندوبنیئے کو محبت اور پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی یہ ہمارے احتجاج کو اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کرتاہے یعنی بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہوگایہ لوگ کشمیر کاز کو اپنی سیاست اور الیکشن کمپیین کا حصہ سمجھتے ہیں اس کے بعد سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کشمیر کی آزادی کے لیے حکومت اپنا کردار ادا کرے وہ حکومت جو بھارت کے ساتھ دوستی کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے یا وہ اپوزیشن جو حکومت کو گھر محض اس لیے بھیجنا چاہتی ہے کہ اس حکومت کے جاتے ہی ان کی حکومت آجائے کیا کبھی آپ کو یہ اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے معاملے میں اس طرح اکھٹی نظر آئی ہیں۔

پاکستان میں موجود کشمیر کمیٹی آخر ہے کس مرض کی دوا ہے یہ ہے سال میں ایک مرتبہ کمیٹی ممبران کے ساتھ ایک بیٹھک کے بعد برخاست ہونے والی اس کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں دوستوں یہ سیاستدان جس انداز میں حکومت بنانے یا اس کو گرانے کے لیے جمع ہوتی ہیں ؟، اس انداز میں یہ کبھی کشمیر کے لیے کھڑے نہیں ہوئے ہونگے یقیناًاس کا جواب انکار میں ہی ہوگا تو پھر ایک بات ٹھری کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں کشمیر کوپاکستان کی حکومت کی نہیں بلکہ پاکستان کی عوام کی ضرورت ہے میری ضرورت ہے آپ سب کی ضرورت ہے اور خاص کر برہان وانی کی ضرورت ہے جو صرف آپ میں اور مجھ میں بستا ہے !! ختم شد۔

Sajid Habib Memon

Sajid Habib Memon

تحریر : ساجد حبیب میمن
موبائل: 03219292108