توہین رسالت قانون پر اعتراضات، ممتاز قادری اور اللہ کی عدالت

Mumtaz Qadri

Mumtaz Qadri

تحریر: محمد صدیق پرہار
سپریم کورٹ نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث ممتازقادری کے حوالے سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کافیصلہ بحال کرتے ہوئے دوبارسزائے موت دینے کاحکم دے دیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آبادہائی کورٹ کی جانب سے دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کافیصلہ بھی کالعدم قراردے دیا ہے۔یہ حکم جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مسلسل تین روزکی سماعت کے بعدجاری کیا ہے اپنے مختصرحکم میں عدالت نے انسداددہشت گردی کی عدالت کافیصلہ بحال کیاہے جس میںممتازقادری کوانسداددہشت گردی کی دفعہ 780A کے تحت اور ضابطہ فوجداری قانون کے تحت الگ الگ سزائے موت دی گئی تھی۔جسے اسلام آبادہائی کورٹ نے ٣٠٢ کی حدتک سزائے موت برقراررکھی تھی تاہم انسداددہشت گردی کی دفعہ ختم کردی تھی۔جس کے خلاف ممتازقادری نے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔

جبکہ وفاقی حکومت نے دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کے فیصلے کوچیلنج کیاتھا۔ممتازقادری کی جانب سے خواجہ شریف اورنذیراخترایڈووکیٹ پیش ہوئے خواجہ شریف نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ملزم کواس کام پراکسانے والے مولویوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔استغاثہ کو چاہیے تھا ان کوبھی شامل تفتیش کرتے اوران کوبھی سزادیتے۔جبکہ ممتازقادری کے دوسرے وکیل نذیر اختر کا موقف تھاکہ اسلامی تاریخ میں جس نے بھی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی شان میں گستاخی کی اس کی سزاموت رکھی گئی ہے۔اوریہ کہ سزائے موت کے حوالے سے ملزم سے قصاص اوردیت طلب نہیں کی جاسکتی۔ممتازقادری کی مارنے کی نیت اچھی تھی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اگراس طرح ہرکواجازت دے دی جائے تومعاشرہ فسادکامجموعہ بن جائے گا۔

عدالتی فیصلے سے اصلاح ممکن نہیں ہے اس کے لیے معاشرے میںبرداشت کاکلچرپروان چڑھانے کی ضرورت ہے معاشرے برداشت کے بغیرقائم نہیںرہ سکتییہ مخصوص ذہنیت ہے جس کوسکولوں ،کالجوں، دفاتر اور دیگر جگہوں پر پروان چڑھایاجاتا ہے۔اس پرممتازقادری کے وکیل نذیراخترنے کہا کہ ناموس رسالت کے مقدمے میں قصاص اوردیت نہیں ہے جہاںحدجاری نہ ہووہاں تعزیرکے تحت سزادی جاسکتی ہے آپ کم سے کم سزادیں۔دہشت گردی کی دفعہ بنتی ہی نہیں۔نئے قانون میںجوترمیم کی گئی ہے اس میں نہ صرف جہادکونقصان ہوگابلکہ دہشت گردوں کے خلاف جاری ضرب عضب بھی متاثرہوگاسرکاری وکیل عبدالروئوف چوہدری نے کہا کہ یہ دہشت گردی اورقتل کامقدمہ ہے لہٰذا سزائے موت دی جائے۔ جس پرعدالت نے مشاورت کے لیے پندرہ منٹ کاوقت لیا۔

Islamabad High Court

Islamabad High Court

بعدازاں فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آبادہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں درخواست منظور کرلی اور دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا۔ اس طرح سے عدالت نے انسداددہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے ممتازقادری کو دوبار سزائے موت دینے کاحکم دے دیا ہے۔مم تازقادری کے وکیل نذیراخترنے آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دیں گے اور عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں فیصلہ کوچیلنج بھی کریں گے۔کیونکہ اس میں ناموس رسالت کے حوالے سے شرعی معاملات بھی زیربحث آنے ہیں۔فیصلے کے چیلنج کرنے کاحتمی فیصلہ آئندہ چندروزمیںکیاجائے گا۔عدالت نے ممتازقادری کے جذبہ عشق مصطفی اوراس کے اقدام کوجرم قراردیا۔یہ فیصلہ معاشرے پرگہرے اثرات مرتب کرے گا۔

جس طرح سے شان رسالت میں کئی لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں اس فیصلے سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی ۔یہ عدالت کافیصلہ ہے ہم اس کوشریعت اپیلٹ بینچ میں چیلنج کریں گے۔اس سماعت سے پہلے سماعت میں سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ اگرلوگوںنے توہین مذہب کے مرتکب افراد کو خود ہی سزا دینے کافیصلہ کرلیاتوملک میں افراتفری پھیل جائے گی۔اورمخالفین ایک دوسرے پر توہین مذہب کے الزام لگا کر دشمنی نکالنے کی کوشش کریں گے۔عدالت نے ممتازقادری کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر سے استفسارکیاکہ توہین مذہب کے قانون میں کسی کوذاتی حیثیت میں کیا اختیار دیا گیا ہے اورکیاایک شخص خودہی جج بن کرتوہین مذہب کے مرتکب افرادکوسزادے سکتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کومروجہ قانون کودیکھناہوگا۔انہوںنے کہاکہ عدالت کے سامنے قتل کامقدمہ ہے اوراس مقدمے کوسامنے رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ممتا زقادری کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کی سابق گورنرپنجاب سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ انہوں نے کہاکہ ان کے موکل کورنج تھا کہ سلمان تاثیرنے توہین مذہب کے قوانین کی مخالفت کی اوراس لیے ان کے موکل کی نظرمیں گورنرپنجاب واجب القتل تھے۔

ممتازقادری کیس میں عدالت عظمیٰ کاجوفیصلہ آیا ہے۔ اس پرتبصروں اورتجزیوںکاسلسلہ شروع ہوچکا ہے۔اس کیس میں آئین اورقانون کیاکہتا ہے یہ قانونی ماہرین ہی بہتربتاسکتے ہیں۔تاہم یہ بات طے ہے کہ ممتازقادری کایہ کیس دہشت گردی اورقتل کے دیگرمقدمات سے الگ نوعیت کاکیس ہے۔اس کیس میں اوراس سے پہلے جب بھی توہین رسالت کاکوئی واقعہ سامنے آتا ہے توہمارے دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں،تجزیہ کاروں اورتبصرہ نگاروںکوچندباتیں شدت سے یادآنے لگتی ہیں اوروہ ان کابڑھ چڑھ کرپرچاربھی کرتے رہتے ہیں۔توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے پہلااعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ اس کاغلط استعمال ہورہا ہے۔ لوگ مخالفین پرتوہین رسالت کاالزام لگاکران سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس لیے اس قانون پرنظرثانی ہونی چاہیے۔صاف لفظوںمیںیوں کہیں گے کہ اس قانون میںتبدیلی کرنی چاہیے۔

Modification

Modification

اس کے نفاذ اور اطلاق میں نرمی کرنی چاہیے۔ ملزمان کے بچ نکلنے کاراستہ فراہم کرناچاہیے۔اس میں ایسی ترمیم کردی جائے جس سے اس جرم میں ملوث مجرم کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھاسکیں۔توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کاجوازبناکراس میں ترمیم یااس قانون کوتبدیل کرنے والے خودہی جائزہ لیں کہ کیاتوہین رسالت کے قانون کے علاوہ ملک میں جتنے بھی قوانین نافذ ہیں ان کادرست استعمال ہورہا ہے۔ یہ توکوئی نہیں کہتا کہ کسی بے گناہ کواس جرم کی سزادی جائے۔جس کے خلاف یہ الزام ہواس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں۔جرم ثابت ہوجائے توسزادی جائے اورملزم بے گنا ہ ہوتو اس کوباعزت رہاکردیا جائے۔اس لیے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کاجوازبناکراس میں ترمیم یاتبدیلی کرنے کے خواہش مند یہ مطالبہ چھوڑدیں۔توہین رسالت کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ انسان میںبرداشت ہونی چاہیے۔

انسان کواشتعال میں نہیں آناچاہیے۔ہمارے دانشوروں ،تبصرہ نگاروں،تجزیہ کاروںاوردیگرشخصیات کوبرداشت کالفظ توہین رسالت کے لیے ہی یادرہتا ہے ان کواورکسی موقع پریہ لفظ یادنہیں رہتا۔جب دوبھائیوںکوڈنڈوں سے تشددکرکے شہیدکردیاگیااس وقت توکسی کویادنہیں رہا کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔جب لاہورمیں چرچ پردہشت گردی وارداتوں کے بعداحتجاج کے دوران دوبے گناہ جوانوںکوآگ میں کوئلہ بنادیاگیااس وقت بھی کسی کویادنہیں رہا کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔جب محترمہ بے نظیربھٹوکوشہیدکردیاگیا اس کے بعد ملک بھرمیں ہونے والے احتجاج میں ملک وقوم کاجونقصان ہوااس وقت بھی کسی نے نہیں کہا کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔اس طرح کے بہت سے واقعات ہمارے قارئین کومل جائیں گے جن میں قوم کوبرداشت کادرس دینے ضرورت تھی مگریہ بات اس وقت کسی کویادنہیںہوتی۔

جب بھی توہین رسالت کے بعدردعمل کاکوئی واقعہ ہوجائے توبرداشت کافلسفہ شدت سے یادآنے لگتا ہے۔اس سلسلہ میںگزارش یہ ہے کہ برداشت کی بھی کوئی حدہوتی ہے۔جولوگ توہین رسالت پرردعمل کے بارے میںبرداشت کادرس دیتے ہیں ان کے سامنے ان کے باپ کی بے عزتی کر دیں پھردیکھیں کہ وہ خودبرداشت کے فلسفہ پرکتناعمل کرتے ہیں۔اپنے باپ کی بے عزتی توبرداشت نہیں کرسکتے اورتوہین رسالت کے معاملے میں برداشت کادرس دیتے ہیں۔توہین رسالت کے واقعہ کے بعد ردعمل کااظہارکرنے والوں سے توکہاجاتا ہے کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔جواس سنگین ترین جرم کاارتکاب کرتے ہیں یاتوہین رسالت قانون میں کوئی نہ کوئی جوازبناکراس میں ترمیم یاتبدیلی کی باتیںکرتے ہیں ان سے توکوئی نہیںکہتا کہ وہ کوئی ایسالفظ زبا ن سے نہ نکالیں،ایسا کوئی تبصرہ یاتجزیہ نہ کریں،ایسے ردعمل کااظہارنہ کریں جس سے کسی مسلمان کی برداشت جواب دے جائے۔

Blasphemy

Blasphemy

توہین رسالت کے واقعہ کے بعد ردعمل ظاہر کرنے والوں کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لیناچاہیے۔ کوئی شخص ازخود کسی کو سزانہ دے۔ہرشخص کے ازخود سزا دینے سے ملک میں افراتفری پھیل جائے گی۔ ممتازقادری کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا۔ پہلے تویہ دیکھناچاہیے کہ اس نے یہ اقدام ازخود کیا یااس کوایسا قدم اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ تحریر پڑھنے والوں کادھیان علماء کرام اورمولویوں کی طرف جائے گا جن کی تقاریر سن کراس نے ایسا قدم اٹھایا۔یہ تجزیہ درست نہیں ہے۔ ممتازقادری کوایسا قدم اٹھانے پر مجبو رکرنے والے کوئی اور بھی ہوسکتے ہیں۔جس وقت سلمان تاثیر مرحوم نے وہ قابل اعتراض اور ناقابل برداشت الفاظ کہے تھے جن کے ردعمل میں اس کوقتل کیاگیا تھا۔اس وقت کسی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں یاعدلیہ سے رابطہ کیاتھا یانہیں۔ سلمان تاثیرکے توہین رسالت قانون بارے کہے گئے قابل اعتراض الفاظ کے خلا ف کوئی شخص یاافراد،کوئی تنظیم یاگروہ کسی فور م پرشکایت لے کرگیا تھایانہیں۔

اگرکوئی کسی فورم پرسلمان تاثیر کے خلاف ایف آئی آرکٹوانے، شکایت درج کرانے ،مقدمہ دائرکرانے گیا تھا یاگئے تھے تومتعلقہ فورم سے ان کوکیاجواب ملا۔شکایت کرنے والوں کوفورم کی طرف سے کیاجواب ملا اورکس قسم کے رویہ کاسامناکرنا پڑا۔کسی فورم نے سلمان تاثیرکے خلاف شکایت درج کرلی تواس کی کارروائی کاکیابنا۔اوراگران شکایات پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ تمام متعلقہ فورم نے شکایات درج کرانے والوں پرکوئی توجہ نہیں دی توپھراپنے ضمیرکی عدالت میں یہ فیصلہ کرائیے ممتازقادری کے قانون ہاتھ میں لینے کاذمہ دارکون ہے۔ایسے ذمہ داروںکوتلاش کرکے ان کے خلاف ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے یانہیں۔کسی کے خلاف توہین رسالت کامقدمہ درج ہوجائے توہمارے دانشوروں، تبصرہ نگاروں، تجزیہ کاروں اور معترضین کی ڈکشنری میں یہ اس قانون کاغلط استعمال کہلاتا ہے اوراگرکوئی گستاخ رسول کوقتل کردیا جائے۔

تویہ قانون ہاتھ میں لیناکہلاتا ہے۔اگرکوئی کسی بھی فورم پر سلمان تاثیرکے ان الفاظ کے خلاف شکایت لے کرنہیں گیا تو کیایہ پیمراکی ذمہ داری نہیں تھی کہ چینلزپرکہے گئے ایسے الفاظ کانوٹس لیتا ہے متعلقہ چینلزکے مالکان،پروگرام کے پروڈیوسر،میزبان اورالفاظ کہنے والے کونوٹس جاری کرتا اوران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرتا۔پیمرانے اس کانوٹس لیا تھا تواس کی کارروائی کاکیابنا۔اوراگرپیمرانے اس کانوٹس لیاہی نہیں اورنظراندازکردیا تھا توخودہی فیصلہ کرلیں کہ ممتازقادری کے قانون ہاتھ میں لینے کاذمہ دارکون ہے۔اس میں توکوئی دورائے نہیں کہ ممتازقادری نے قانون ہاتھ میںلیااس کوایسا نہیں کرناچاہیے تھاجب سلمان تاثیرتوہین رسالت کی ایسی ملزمہ جس کے خلاف عدالت میں کیس کی کارروائی کاعمل جاری تھا تو پریس کانفرنس اس کی صفائی پیش کرنا کیاقانون ہاتھ لینانہیں کہلاتاہے۔

Violation

Violation

کیا یہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ عدالت کے باہرکسی ملزم کی صفائی پریس کانفرنس سمیت کسی بھی غیرعدالتی فورم پردی جائے۔سلمان تاثیر جس کی صفائی پیش کررہاتھا اگروہ اس نے یہ جرم نہیں کیاتھا تواس کوعدالت میں بے گناہ ثابت کرتا۔ہم ممتازقادری کے وکلاء سے گزارش کرتے ہیں کہ ممتازقادری کوسنائی گئی سزاکے خلاف نظرثانی کی اپیل منظورہوجائے تووہ اس تحریر میں یاددہانی کرائے گئے نکات پرہی توجہ دیں۔

یہ سطور لکھتے ہوئے بارباریہ خیال آرہا ہے کہ ممتازقادری کوسنائی گئی سزاکونظرثانی کی اپیل میں بھی برقراررکھا جائے یاسزامیں کمی کی جائے یاممتازقادری کوبری کردیاجائے گا یہ نظرثانی کی اپیل کافیصلہ آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔یہ سطورلکھتے ہوئے باربارجوخیال آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ممتازقادری تختہ دارتک نہیں جائے گا۔اس کے نمازجنازہ میں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں شریک ہوں گے اوربڑے بڑے پارسا، پرہیزگاراورنیکوکاراس دن یہ تمنا کریں گے کہ کاش یہ جنازہ میراہوتا۔یادرکھیں بھول نہ جائیں اللہ کی عدالت بھی ہے۔ اللہ کی عدالت کا فیصلہ بھی آنا ہے۔اللہ کی عدالت کافیصلہ کس کے خلاف آتا ہے اورکیافیصلہ آتا ہے اس کے لیے سب کو انتظار کرنا ہوگا۔ ریمنڈ ڈیو س رہا ہوسکتا ہے توممتازقادری کوبھی رہا ہوناچاہیے۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com