اندھا چشمہ

Glasses

Glasses

تحریر : وقار النسا
جی! ھمیشہ سے ہی چشمہ کمزور نظر کے لئے پہنا جاتا ہے آج کل تو اس کے لئے عمر کا بڑا ہونا بھی ضروری نہیں بچوں کو بھی لگا ہوتا ہے تاکہ انہیں دیکھنے پڑھنے میں آسانی ہو اور چشمہ لگانے سے خاطر خواہ نتائج بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ارباب اختیار کو بھی ایسا چشمہ لگا ہوتا جس سے وہ اپنے ملک میں ہونے والی بد امنی بدحالی غریبوں کی خستہ حالی کے ساتھ ابتری اور افراتفری کو بھی دیکھ سکتے ان کی آنکھوں کو عوام کے دکھ بھی دکھائی دیتے وہ خوف وہراس کو بھی دیکھ سکتے جن کا سامنا عوام کو رہتا ہے ملک میں ہونے والی ڈکیتی کی وارداتوں نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے دن دہاڑے چور بازاری اور قتل وغارت گری نے لوگوں کا سکھ چین برباد کر ديا ہے

اتنے عرصہ سے ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے امن قائم رکھنے میں ناکام ہیں –اورکامیاب بھی کیسے ہوں جب کہ اس حالت کے ذمہ داروں میں ان کا بھی نام سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے جہاں کہیں واردات ہوئی وہاں ڈاکوؤں کی پشت پناہی کے لئے یہ ھر دم مستعد اور چوکنے رہتے ہیں اور ان کے پیچھے اندھا چشمہ لگائے ارباب اختیار ہیں جن کا بس چلے تو وہ سونا چاندی تو ایک طرف موتی ھیرے جواہرات کی قبریں بنوا لیں ان کے چشموں میں شیشے کے بجائے ڈالروں کی گڈیاں لگی ہیں یہ بے چارے دیکھ نہیں سکتے-

ان کی مثال اس بھوکے کی سی ہے کہ جس سے پوچھا گیا دو اور دو کتنےہوئے ؟ اس نے کہا دو اور دو چار روٹیاں ان کو تو خواب میں کرسی اور ملک کا ڈھانچہ نظر آتا ہے جس کو یہ نوچنا چاہتے ہیں ملک میں ہونے والی ڈکیتی کی وارداتیں کیا انتظامیہ کی نااہلی کا ثبوت ہیں ؟ یا یہ لوگ آدھے کے حصے دار ہیں -جہاں دوسرے شہروں میں ایسے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں وہاں ملتان شہر ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر نظر آتا ہے –ایک ایسی ہی خوفناک واردات صبح آٹھ دس بجے پیش آتی ہے

Robber

Robber

ملتان میں دن دھاڑے ہونے والی واردات میں چھ مسلح افراد نے درجنوں لوگوں کو یرغمال بنا لیا اور مال لوٹ کر اور نوٹوں سے تھیلے بھر کر چلتے بنے لاری اڈہ روڈ پر پررونق جگہ صبح واردات ہوئی تودکان میں نصب کیمرے نے ان ڈاکوؤں کا طریقہ واردات اپنی آنکھ میں محفوظ کر لی یہ نقاب پوش اسلحہ لئےکس دیدہ دلیری سے آئے ایسا لگتا تھا کہ وہ نہ تو قانون سے ڈر رہے ہیں نہ ہی ان کو کسی بات کا خوف ہے – وہ اسی شہر کے لوگ ہیں تو کیا ان کو شناخت کرنا ممکن نہیں؟ ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ جائے واردات پر پولیس بروقت پہنچ جائے اسی دکان کے باہر لوگ چل پھر رہے ہیں کسی کو پرواہ نہیں اور جیسے ہی وہ تھیلے بھر کر موٹر سائيکل پر سوار ہو کر روانہ ہوتے ہیں لوگ بھی آکر بھیڑ ڈال لیتے ہیں اور بعد میں پولیس بھی آتی ہے

عوام کی آنکھوں میں کیسے دھول جھونکتے ہیں بس اللہ اللہاپنی کارکردگی دکھانے کوتفتیش شروع ہوتی ہے عوام کو پاگل بنانے کے لئے جدید طریقوں سے تفتیش ہوتی ہے ایسے دکھائی دیتا ہے کہ یہ اپنے کام میں بہت مستعد ہیںیہ وہ دکھاوہ ہے جو وقتی نظر آتا ہے بعد میں رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوتا ہے قصور کے واقعہ نے دلوں کو دہلادیا اوروہاں ہر ثبوت کے بعد اور لوگوں کی گواہی اور دہائی کے بعدجوڈیشنل کمشن بنایا گیا –حیرت کی بات ہے کہ اس قبیح فعل کے بعد اور سب ثبوتوں کے ہوتے ہوئے کیا

Judicial Commission

Judicial Commission

ان لوگوں کو عبرت ناک سزا نہ دی جاتی ؟کیا جوڈیشنل کمشن بنانے کی ضرورت تھی؟ جب کہ لوگ گواہ بھی تھے ثبوت بھی موجود تھے اور مجرموں نے اعتراف بھی کر لیا تھا -اس طرح کے لاتعداد واقعات ملک میں رونما ہو رہے ہیں اس کے باوجودان کی روک تھام نہیں ہو رہی –اس کی وجہ سر کردہ افراد کا مجرموں کی پشت پناہی ہے خدارا نظر کا چشمہ پہنیں جس سے عوام اور اپنا ملک آپ کو نظر آئے اندھے چشمے اتار پھینکیں

تحریر : وقار النسا