یہ اندھا قانون ہے

Khawaja Izhar-ul-Hassan Arrested

Khawaja Izhar-ul-Hassan Arrested

تحریر : عماد ظفر
دنیا کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ معاشرے اور قومیں بنا انصاف کے پنپ نہیں سکتے. قانون جب معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کیلئے ایک جیسا ہو تب ہی معاشرے آگے کی جانب بڑھتے ہیں. کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما اور سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کو پولیس نے گرفتار کیا کیا گویا پورے پاکستان میں ایک ہلچل مچ گئی. راو انوار نے جو طریقہ خواجہ اظہار کو گرفتار کرنے کیلئے اپنایا وہ یقینا قابل تعریف نہیں تھا لیکن اس واقعے کے بعد سندھ کے چیف منسٹر سے لیکر ملک کے وزیر اعظم تک کا فوری حرکت میں آ جانا اور خواجہ اظہار کی رہائی کے فوری احکامات جاری کرنا یہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ کیا قانون کا اطلاق صرف کمزور اور غریب آدمی پر ہی ہوتا ہے.

زرا ایک لمحے کو تصور کیجئے کہ راو انوار نے اسی طریقے سے کسی عام آدمی کے گھر پر چھاپہ مارا ہوتا تو کیا وزیر اعلی سندھ یا وزیر اعظم پاکستان آیات ہی فون کھڑکاتے اور فورا ایسے واقع کی مذمت کرتے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے. یہ قانون کا جال صرف اور صرف کمزور افراد کو ریاست کے ہاتھوں یرغمال بنانے کیلئے استعمال ہوتا ہے.پاکستان میں ہزارہا افراد جیلوں میں بنا کسی گناہ یا مقدمے کے سڑ رہے ہیں لیکن وزیر اعظم یا وزرائے اعلی کو کبھی بھی ان کے بارے میں کوئی فوری اقدام اٹھانے کی ضرورت نہیں پیش آتی کیونکہ وہ بے بس اور لاچار ہیں. اسی طرح سینکڑوں سفید پوش حضرات روزانہ کی بنیادوں پر سنتریوں سے بے عزتی کرواتے ہیں لیکن وزیر اعظم یا وزرائے اعلی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی. البتہ خواجہ اظہار الحسن کا تعلق چونکہ سیاسی اشرافیہ کے کھیل سے براہ راست ہے اس لیئے ان کی دفعہ فورا ایکشن لیا جاتا ہے.

Rao Anwar

Rao Anwar

تھانہ کچہری اور پٹواری یہ تین شعبے اور محکمے ایسے ہیں جن کی ریفارمز پر کبھی بھی کسی سیاسی جماعت نے سنجیدگی سے نہ تو کام کیا اور نہ کرنا چاہتی ہے.کیونکہ ایک عام آدمی جو ملازمت پیشہ ہو محنت مزدوری کرتا ہو یا چھوٹا موٹا تاجر ہو اس لو دبانے کیلئے یہی تین محکمے سیاسی جماعتوں کے کام آتے ہیں. آپ عزیر بلوچ سے لیکر گوگی بٹ اور باری ملک سے لیکر تاجی کھوکھر تک تمام بدمعاشوں کے کوائف پر نظر ڈالیے آپ کو بھابی اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی سرپرستی مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں نے کی اور اس مقصد کیلئے پولیس کچہری اور پٹوار کا بھرپور استعمال کیا گیا.یعنی عوام کو دبانے کیلئے ایک طرف کالے قوانین اور ریاستی اداروں کا استعمال اور دوسری جانب ان بدمعاشوں اور قبضہ مافیا کو پال کر اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنا سیاسی اشرافیہ اپنا ازلی حق سمجھتی ہے.

دوسری جانب پولیس فورس میں بھی من پسند افسران بھرتی کیئے جاتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر سیاستدانوں اور اس نظام کے خوب کام آتے ہیں. راو انوار ہو یا عابد باکسر یہ پولیس افسران بھی سیاسی پرستی میں محکمے اور قانون کی دھجیاں بھکیرتے ہوئے مخالفین کے ماورائے عدالت قتل سے لیکر انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کے کام آتے ہیں. یہ قانون جو آج پاکستان میں رائج ہے کسی بھی صورت ایک عام آدمی کے تحفظ کیلئے نہیں ہے . ایک عام آدمی کو تھانہ کچہری کا سامنا کرنا پڑے تو اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے.

اگر موٹر سائیکل یا گاڑی بند ہو جائے تو فورا کسی تگڑے افسر کی کال کروانے کی ضرورت پیش آتی ہے یا پھر علاقے کی معزز اور بااثر شخصیت کی منتیں کرنا پڑتی ہیں.اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ علاقے کی معزز شخصیت صرف ایک ایم این اے ایم پی اے ناظم یا کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ ہی ہو سکتا ہے. کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ آپ چاہے قبضہ مافیہ سے ہوں یا ڈکیتی و قتل کی وارداتیں کریں ایک دفعہ آپ سیاست میں انٹری دے دیں تو فورا بااثر اور معزز شخصیت کے القاب آپ کے نام کے ساتھ لگ جاتے ہیں اور آپ کے سارے جرائم دھل جاتے ہیں. تھانوں میں درج ایف آئی آرز اور کچہریوں میں چلتے مقدمات بھی آہستہ آہستہ ردی کے ڈھیر تلے دب جاتے ہیں.

اس بات کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ سیاست کی آڑ میں جن کالی بھیڑوں کو معزز بنایا جاتا ہے ان سے بوقت ضرورت کسی بھی قسم کا کام لیا جا سکتا ہے.یوں سیاسی جماعتوں پر سیاسی خاندانوں کا آمرانہ تسلط قائم و دائم رہتا ہے اور یہ گلا سڑا نظام بھی رینگتا رہتا ہے. اس کے رینگنے کا سارا بوجھ اس عام آدمی کے کاندھوں پر ہوتا ہے جو اپنے اپنے شعبے میں تن من اور جان وار کر بھی کبھی معزز اور بااثر نہیں بننے پاتا. یہی عام آدمی جمہوریت کے نام کے استعمال کیلئے بھی بے حد ضروری ہے.

Democracy

Democracy

اسی عام آدمی کے نام پر جمہوریت کا لبادہ اوڑھے سیاسی آمراور سرکاری منشی جنہیں عرف عام میں بیوروکریسی کہا جاتا ہے اپنی اپنی تجوریاں بھرتے ہیں آئین اور قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں. خواجہ اظہار الحسن پر لگ بھگ 28 کے قریب ایف آئی آرز ہیں اور ان کا نام کئی سنگین قتل کی وارداتوں سے جڑا ہوا ہے ہو سکتا پے کہ خواجہ اظہار الحسن بے گناہ ہوں لیکن کیا ایک کالج کا پروفیسر ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والا ڈاکٹر ایک آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والا انجینئر کسی کال سینٹر میں کام کرنے والا فرد یا کوئی دوکان چلاتا ہوا ایک آدمی اتنی ایف آئی آرز کے ہوتے ہوئے اسی طرح آزادانہ گھوم سکتا تھا یا معزز کہلوا سکتا تھا؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے.

کیونکہ خواجہ اظہار الحسن ممبر پارلیمنٹ ہیں کیونکہ وہ سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ہیں اس لیئے وہ یا کوئی بھی اور ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی جو مرضی کریں جتنے مرضی قوانین توڑیں ان کو گرفتار کرنے کیلئے پہلے متعلقہ اسمبلی کے سپیکر کی اجازت ضروری اور پاکستان میں بسنے والے کڑوڑہا عام افراد کو چاہے پولیس بنا وارنٹ گرفتار کرے نہ تو اس کی کوئی تذلیل ہوتی ہے اور نہ ہی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا پے کیونکہ وہ “معزز” جو نہیں ہوتا. کیا بھونڈا اور مضحکہ خیز تماشہ ہے جو اشرافیہ نے رچا رکھا ہے اور کتنا بہرا اور اندھا قانون ہے جو صرف اور صرف عام آدمی پر لاگو ہوتا ہے. شاید ہم لوگوں نے بھی لاشعوری طور پر فیصلہ کر لیا ہوا ہے کہ اسی گلے سڑے نظام تلے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی سر جھکا کر جینے کا درس دے کر جائیں گے اور اس کمـزوری کو ” شرافت ” کا نام دے کر اپنے تئیں دل کو ناکام تسلی دیں گے “شریف” آدمی اور کر بھی کیا سکتا ہے.

Imad Zafar

Imad Zafar

تحریر : عماد ظفر