یہ کس کا لہو اور کون مرا، نئی اموات پرانے دعوے‎

Attack on Police

Attack on Police

تحریر : عارف رمضان جتوئی
کراچی کے دو مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں 7پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ پولیس اہلکار انسداد پولیو ورکرز کے تحفظ کے لیے ان کے ساتھ تعینات کیے گئے تھے۔ فائرنگ کا پہلا واقعہ اورنگی ٹاون 15 نمبر میں پیش آیا جہاں 4 موٹرسائیکلوں پر سوار 8 افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 3 اہلکاروں شہید جاں بحق ہوئے۔ دوسرا واقعہ پاکستان بازار تھانے حدود میں پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے پولیس موبائل پر فائرنگ کردی، نتیجے میں 4 اہلکار شہید ہوگئے جس کے بعد ضلع غربی میں انسداد پولیو مہم روک دی گئی ہے۔ عباسی شہید اسپتال کے ایم ایل او نے فائرنگ کے واقعات میں جاں بحق ہونے والوں کی شناخت غلام رسول، غازی خان، دائم الدین، محمداسماعیل، رستم، گل خان اور وزیر کے نام کی ہے۔ جنہیں سر اور سینے میں گولیاں ماری گئیں۔ ملزموں کے پاس ایس ایم جی اور نائن ایم ایم پستول تھیں جن کی گولیوں کے خول جائے حادثہ سے ملے ہیں۔

سانپ تو بھاگ گئے مگر لکیر چھوڑ گئے۔ حسب مطابق واقعے کے بعد وہیں لکیر پیٹنے والا کام شروع ہوگیا ہے۔ ایس پی اورنگی ٹاﺅن نے کہا کہ حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے اور علاقے میں ناکہ بندی کردی گئی ہے۔ فارنزک ٹیمیں بھی جائے وقوعہ پر پہنچی اور دورہ کیا ۔ رینجرز نے بھی سراغ رساں کتوں کی مدد سے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے دہشت گردوں کی شناخت میں مدد دینے والوں کے لئے 50 لاکھ روپے انعام اور شہید پولیس اہلکاروں کے ورثا کے لئے 20،20 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا۔

اتنا ہی نہیں ملک کے مصروف ترین وزیراعظم محمد نواز شریف نے وقت نکال کر واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ پولیس اہلکاروں نے آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ وفاق کے بعد صوبائیت نے لب کھولے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے آئی جی سندھ کو فون کیا اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔ صوبائی وزیرداخلہ سہیل انور سیال نے واقعے کی خبر گیری کی اورکہا کہ پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کو جلد گرفتار کرلیں گے۔

Polio Campaign Pakistan

Polio Campaign Pakistan

بیان بازی کی سلسلہ تو وقاق سے ہوتا ہوا صوبائی حکومت اور پھر اداروں سے ہوتا ہوا سیاسی لیڈروں کی جاری پریس ریلیز سے اگلے کچھ روز تک جاری رہے گا۔ جانے والے تو چلے گئے اور پیچھے چھوڑ گئے اپنے گھر والوں کے لیے آہ بکا۔ موت کو گلے لگانے والے پولیس اہلکار پولیو ویکسین پلانے والے ورکرز کی حفاظت پر معمور تھے۔ پولیو کو پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔ پولیو سے متعلق ایک الگ بحث کچھ روز زیر بحث رہی ہے کہ یہ ویکسین مسلمانوںکے لیے درست ہے یا نہیں۔البتہ اس پر مختلف مفتیان پاکستان نے بھی فتاوے جاری کیے مگر شاید اس کے باوجود کچھ ایسے افراد اب بھی موجود ہیں جنہیں اس ویکسین سے مسائل نظر آتے ہیں۔ جبھی گزشتہ کئی برسوںسے ہر بار ٹیموں پر حملوں کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

کچھ حد تک اگر یہ سلسلہ تھما تھا تو پولیو ویکسین کی آڑ میں کالعدم تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل کرنے جیسی باتیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ جس سے پولیو ورکرز کے لیے مزید مسائل پیدا ہوئے۔ حال میں ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پولیو وائرس پایا جاتا ہے۔ ملک میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث جون 2014 میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کے لیے پولیو ویکسین کو لازمی قرار دیا تھا۔

اب یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آیا حملہ آورں کو پولیو سے مسئلہ ہے یا انسداد پولیو سے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے پولیس اہلکاروں پر حملے کے واقعات میں تیزی آچکی ہے، جس میں ڈیوٹی پر مامور متعدد اہلکار جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی طرح اب بھی صرف بیان بازی کی حد تک دعوے رہیں گے یا کوئی عملی اقدامات بھی سامنے آئیں گے۔ ویسے تو بیان بازی کرنے میں سیاستدان تو صف اول میں تھے مگر اب ہمارے سنجیدہ ادارے اور وزرا بھی بیان بازی کے دھنی ثابت ہورہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بیان بازی کے لیے صاحب کے ماتحت پریس ریلیز پہلے سے تیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ جیسے ہی کوئی خوشگوار یا غمناک خبر سننے کو ملی مذمتی یا مبارک باد کی پریس ریلیز جاری کردی جاتی ہے۔ کئی بار تو ایسے بھی ہوا کہ بیانات میں صاحب کے پی آر او جگہ اور لائن تبدیل کرنا بھول جاتے ہیں اور پریس ریلیز مزاحیہ صورتحال اختیار کر لیتی ہے۔

Gun Fire

Gun Fire

حالیہ یا ماضی میں پولیس اہلکاروں پر حملوں میں کچھ چیزیں بہت اہم ہیں جن پر تھوڑی سی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ایک وہ سرکاری اعلیٰ عہدیداران ہیں جنہیں واقعے کے ہونے کے بعد خبر ملتی ہے وہ بھی ٹی وی سے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ وہ خود اقرار کرتے ہیں ہمیں تو خود ٹی وی سے خبر ملی اور ابھی حالات و واقعات کی تحقیقات جاری ہیں۔ آپ سیکورٹی کے اعلیٰ عہدیداران ہیں اور آپ کو بھی خبر کہیں اور سے مل رہی ہے۔۔ کچھ حیران کن سی بات ہے۔ کئی بار خود پولیس اہلکاروں کا جارحانہ انداز بھی بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے سینئر سے ناخوش ہیں۔ حال میں چھوٹو گینگ کے واقعے میں اہلکاروں کے پاس جدید اسلحے کے فقدان کے حوالے سے رپورٹ منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی ان اہلکاروں کے پاس کوئی بلٹ پروف جیکٹس نہیں تھیں۔

دوسری بات یہ کہ ان اہلکاروں کے اہلخانہ کو ماضی کی طرح طفل تسلیاں ہی دی جائیں گی۔ متعدد بارکراچی پریس کلب پر ایسے اہلکاروں کے اہلخانہ امداد کے لیے احتجاج کرتے نظر آئے۔ یہ ان کی قربانیوں کا صلہ دیا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ اہم ہے کہ خود یہ اہلکار بھی حفاظتی اقدامات کے بجائے سیکورٹی کے دوران ایسے چل رہے ہوتے ہیں جیسے یہ مجبور کردیے گئے ہوں۔ بے بسی ان کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ انداز تکلم میں کہیں بھی شائستگی نظر نہیں آتی۔ ایسے چند ایک ہوں گے مگر پورے ڈیپارٹمنٹ کے لیے نکتہ تنقید ضرور بن جاتے ہیں۔

ان سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ حکام اور وزرا کو اپنی سیکورٹی کے لیے سخت سے سخت اور اچھے سے اچھے اقدامات چاہیں تو کیا عوام کے لیے وہ ایسی کوئی سہولت مہیا کیوں نہیں کرتے۔ یہ اہلکار جو اوپر سے لے کر نچلی سطح تک سب کی حفاظت پر معمور ہوتے ہیں ان کی اپنی حفاظت کے اقدامات انہیں وزرا کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ لوٹ مار کے چکروں میں پڑ کر خدارا عوام کے ساتھ لہو لہو کا کھیل نہ کھیلے۔ یہ اہلکار بھی یہیں عوام ہیں اور جن کی وہ سیکورٹی کرنے کے لیے نکلتے ہیں وہ بھی یہیں عوام ہیں۔

Arif Jatoi

Arif Jatoi

تحریر : عارف رمضان جتوئی
arif.jatoi1990@gmail.com
0313-6286827