خونی کتاب میلہ

Farzana Naz

Farzana Naz

تحریر : جاوید ملک
اس قدر بے حسی …ایسی سفاکانہ خاموشی…قلم قبیلے کا یہ بھیانک چہرہ تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔ اہل ادب تو معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں ۔جھوٹ، بناوٹ ،ریاکاری سے پاک لوگوں کے دکھوں کو لفظوں میں سمیٹنے والے، معاشرے کی تربیت کرنے والے …لیکن یہ کون لوگ ہیں ؟ وفاقی دارالحکومت کے کتاب میلے میں روز اول سے قباحتیں منہ کھولے کھڑی تھیں۔یہ ادیبوں کا کم اور ادب کی اداکاری کرنے والوں کی زیادہ میلہ تھا ۔فرزانہ ناز جواں سال شاعرہ کا نچ کی گڑیا جو لمحوں میں کانچ کی طرح ہی کرچی کرچی ہوگئی لیکن جاتے جاتے ادب کا لبادہ اوڑھے سبھی مفاد پرستوں کے نقاب بھی نوچ کرلی گئی۔

فرزانہ ناز سے میری چند ملاقاتیں ہیں آخری بار شاید نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی ۔بھلوال جیسے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی اس نو آموز شاعرہ کے خواب اس کے قد سے بڑے تھے چند روز قبل ہی اس کا پہلا شاعری مجموعہ ،ہجرت مجھے سے لپٹ گئی ،چھپ کے آیا تھا اور 3مئی کو اس شاعری مجموعہ کی تقریب رونمائی ہونا تھی مگر اس سے پہلے ہی جذبوں کی اس شاعرہ نے خاک کا کفن اوڑھ لیا۔

نیشنل بک فائونڈیشن کے زیر اہتمام تین روزہ کتاب میلہ کی اختتامی تقریب تھی ۔ یہ سٹیج پر موجود مہمانان گرامی عطاء الحق قاسمی ،احسن اقبال ،عرفان صدیقی یا انعام الحق جاوید میں سے کسی کو اپنی کتاب پیش کرنے سٹیج پر گئی ممکن ہے وہ ان میں سے کسی کو اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں مدعو کرنا چاہتی ہو سیکورٹی پر متعین افراد میں سے کسی نے اسے دھکا دیا اور وہ سٹیج سے سر کے بل نیچے گری ریڑھ کی ہڈی اور سر میں لگنے والی یہ چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی اور خواب دیکھنے والی آنکھیںہمیشہ کیلئے بے نور ہو گئی۔

مجھے اس جواں سال شاعرہ کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک حادثے کی خبر سوشل میڈیا پر شاعرہ رخسانہ سحر کی پوسٹ سے ملی ۔لیکن کیا اس واقعہ کو حادثہ کہنا درست ہوگا میں فیصلہ نہیں کرپارہا کہ اسے حادثہ لکھوں یا بے رحمانہ قتل ایک ایسا قتل جس نے ادب کے چمن کا ایک خوبصورت پھول تو مسل ہی دیا دو معصوم بچوں کی ممتا کو بھی ان سے چھین لیا۔

ایک معاصر قومی اخبار نے تو واضح لکھا ہے کہ نوجوان شاعرہ کی ہلاکت طبی امداد تاخیر سے ملنے کی بنا ء پر ہوئی ۔ حادثے کے ایک گھنٹے بعد بھی ایمبولینس نہ پہنچ سکی آخر کار پولیس کی گاڑی میں جب فرزانہ ناز کو الشفاء ہسپتال پہنچایا گیا تو ہ زندگی کی بازی ہار چکی تھی کئی گھنٹوں تک اعلی سطح کے دبائو کی بناء پر موت کو خفیہ رکھا گیا۔

میرا خیال تھا کہ یہ واقعہ کہرام بپا کردے گا ۔ ادیب ،شاعر تو بہت حساس ہوتے ہیں وہ آسمان سرپر آٹھا لیں گے ۔حکمران معذرتیں کرتے نہیں تھکیں گے نیشنل بک فائونڈیشن کے سربراہ کی بھی نیندیں اُڑجائیں گی ۔
لیکن مفادات کے گھنائونے کھیل نے سبھی لبوں پر چپ کی مہر لگادی ہے ایک شرمناک سناٹا میرے اندازوں کا منہ چڑھا رہا ہے افسوس صد افسوس میرے اندازے ہار گئے اور قلم قبیلے کی مصلحتیں جیت گئیں ہیں۔

ایک عام سی شاعرہ کیلئے آواز اُٹھا کرکوئی اپنے تعلقات کا جنازہ کیوں نکالے ۔اس جیتی جاگتی گڑیا سے زندگی چھین لینے والے ذمہ داروں کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن اس راست گوئی کی ایک قیمت ہے جسے کوئی ادا کرنا نہیں چاہتا ۔مجھے برسوں سے یہ ملال تھا کہ صحافتی مصروفیات مجھے ادب کے آنگن سے بہت دور لے گئی ہیں ۔لیکن آج مجھے اطمینان ہے ہم کبھی کبھار خواہشات کو خبر ضرور بنادیتے ہیں واقعات کے بیان میں ڈنڈی بھی مارلیتے ہیں ذاتی پسند ناپسند کو مقدم بھی رکھ لیتے ہیں لیکن ہم سفاکانہ حدتک بے حس نہیں ہیں ۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ کسی صحافی کے ساتھ پیش آجاتا تو ذمہ دار اتنے سکون سے نہ بیٹھے ہوتے۔ یہ جو ہجوم ہے جن کی تصاویرشہر بھر میں اویزاں کی گئیں ادیب نما کوئی چیز ہونگے اہل قلم نہیں ہیں ۔ اپنے قبیلے کی بیٹی پر جن کا دل نہیں رویا اس ظلم پر جن کے لب صدائے احتجاج نہیں بلند کرسکے وہ گوشت پوسٹ کے لوتھڑے تو ہوسکتے ہیں زندہ لوگ نہیں ہوسکتے اور اہل ادب تو ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتے۔

فرزانہ ناز تمہارے قلم قبیلے کے ان مُردوں کو تو شاید کبھی ہمت نہ ہو ان کے مفادات کی زنجیریں تو ضمیروں کو بھی جکڑ چکی ہیں لیکن میں وہ سارے سوال اُٹھائوں گا جو تجھے انصاف دیں گے ۔ اس کتاب میلے نے سب کی جیبیں بھریں ادب کا چولہ پہنے ان گدھوں کا احتساب ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ تمہاری قبر کی مٹی بھی ٹھنڈی ہوگی ۔تمہارے اس حادثے نے جہاں بے حسی کے سارے پردے چاک کیے ہیں وہیں ہمیں اذیت کی آخری حد سے بھی آشنا کردیا ہے ۔میں انسانوں کے اس قبرستان میں چند ایسے زندہ لوگ ضرور ڈھونڈنکالونگا جو راست گوئی کا حق ادا کریں گے اور یہ ہی تمہارا آخری اعزاز ہو گا۔

Javed Malik

Javed Malik

تحریر : جاوید ملک