سرحدی قبائل

Tribal

Tribal

تحریر : شکیل مومند
ہر قبیلہ مختلف خیلوں میں بٹا ہوتا ہے جو آگے چل کر ذیلی خیلوں اور گھرانے تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر چہ ان خیلوں کے نام جدا ہوتے ہیں لیکن قبائلی معاشرے کی چند خصوصیات ہوتی ہے۔ جو کہ ان تمام میں یکساں اور جڑی ہوتی ہے۔قبائلی معاشرے میں خیلوں کے مابین ایسے روابط ہوتے ہیں۔ جو خاندانوں ، خیلوں اور قبائل کو برادری کے ایک جال میں باندھ کر رکھتے ہے خاندان کی ساخت قبائلی معاشرے کی سب سے پیچیدہ خصوصیت ہے جس کا محور خاندانی وقار، خاندانی جائیداد اور خاندان کے مابین تعلقات ہواکرتے ہے اور جن سے شدید جذباتی تعلق پایا جاتا ہے۔ گھروں کی ساخت تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ اور یہ اکثر قلعہ نما ہوتے ہے ہر گھر کی نمائندگی گھر کا ایک بڑا مرد کرتا ہے جو کہ اکثر دادا ہواکرتا ہے۔اور جس کے کئی بیٹے اور پوتے ہوتے ہے۔ پختون ولی جو پشتو طرزِ زندگی کے رہنمائی کا ایک غیر رسمی مجموعہ قواعد ہے۔

پختون معاشرے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پٹھانوں کی روزمرہ زندگی میں رہنما اُصولوں کا غیر مدون قانون پختون ولی کہلاتا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوںاطراف بسنے والے پٹھانوں نے اپنی اقدار اور ثقافت کو صدیوں بعد بھی زندہ رکھا ہے۔ پختون ولی ہی وہ غیر تحریر آئین ہے جسکی پٹھان سختی سے پاسداری کرتے ہیں اور اسے بڑے فخر سے پیش کرتے ہے۔ اور یہ ان کے لئے عزت اور فخر کی علامت ہے۔ پختون ولی کی تین بڑی روایات ہے۔ مہمان نوازی، جرم کے اطراف ومعافی، قبائلی رشتوں اور تعلقات، دوستی و دشمنی کے اُصول اور بدلہ لینے کے معاملات میں بنیادی رہنمائی فراہم کرتے ہے۔ ان ہی اُصولوں کے بنیاد پر ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف بسنے والے قبائلی پٹھان اپنے آپ کو دیگر قوموں کی نسبت ممتاز سمجھتے ہے۔

قبائلی علاقہ جات کے عوام اور قبیلہ کی وفادریوں کے لحاظ سے منقسم ہے۔ یہ لوگ اپنے معاملات کو خود اپنی روایات کے مطابق طے کرنے کے عادی ہے اور بیرونی مداخلت ہر گز پسند نہیں کرتے۔ جبکہ قبائلی جرگہ تضادات کے حل کیلئے ثقافتی طور پر مستند ترین درجہ کا حامل ہے۔قبائلی علاقہ جات ایسے علاقے ہے جو کہ عام سہولیات کے دسترس سے باہر ہے۔

حکومتی ارکان اور بیروکریٹس طبقہ رپورٹ اور اخباری بیانوں میں اس کو بحریہ ٹائون بنا چکے ہے۔ قبائلی سرحدی علاقے ہر قسم کی سہولیات سے بے خبر ہے اور لوگوں کی سیاسی وابستگی بھی بہت کم ہے اور لوگ آج سے پچاس سال پورانے طریقے سے زندگی جی رہے ہیں کوئی خاص تبدیلی رونمانہیں ہوئی۔جو لوگ پچاس سال پہلے یہاں پر آباد تھے وہ آج ہم میں سے نہیں۔ وہ لوگ جو گھروں، حجروں اور اپنی زمین کی خود دیکھ بھال کرتے تھے جن کے قول و فعل ایک تھے رسم و رواج بخوبی نباتے تھے۔

آج ان کی جگہ بیٹوں اور پوتوں نے لے لی ہیں۔ان کے ہاتھ کے بنے ہوئے گھر، حجرے اور زمینی راستہ اب بھی وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کیونکہ ان کی نشانیاں آج بھی باقی ہے۔ ان کے قبروں پر اب مٹھی بھی نہ رہی ایسے معلوم ہوتے ہے جیسے یہ سو سال پرانے قبریں ہے۔ ان کے بیٹوں اور پوتوں کو بھی اتنی تکلیف آوارہ نہیں ہوئی کہ دو چار منٹ قبرستان میں گزار سکے ۔آج بھی ان علاقوں میں تار کا نظام موجود ہے۔سرحدی علاقوں میںبے تحاشہ تکالیف کے باوجود یہ لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسی کونسی خوشبو اس مٹھی سے وابستہ ہے جن کو چھوڑنے کا من نہیں کررہا۔ ہماری دعا ہے کہ قبائلی علاقے ہمیشہ آباد اور خوشحال رہیں۔

Shakeel Momand

Shakeel Momand

تحریر : شکیل مومند