آغوش مادر لہو لہو ہے

Quetta Police Training College Attack

Quetta Police Training College Attack

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
کوئٹہ میں ایک قیامت گزر گئی اور ہم مذمتی بیان دے کر مطمئین ہو گئے ماں دھرتی کی گود اجڑ رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے مزے سے بیٹھے ہیں ۔سب سے پہلے جو سوال ذہن میں لاوے کی طرح پھوٹ رہا ہے کہ پولیس ٹریننگ سنٹر کوئی پبلک پلیس نہیں جس میں جو چاہے منہ اٹھائے گھس جائے ۔یہ صوبائی دارلحکومت بلوچستان میں واقعہ ایک حساس مقام ہے پھر اس میں چھ سات دہشتگرد بمعہ آتشیں اسلحہ کس طرح داخل ہوئے ۔ کیا وہاں چیکنگ کا معیار اتنا ہی ناقص ہے کہ جس کو وہ دہشتگرد اپنی اماں جی کا صحن سمجھ کر بلا خوف و خطر اندر چلے گئے اور اندھا دھند فائرنگ کر کے میری دھرتی ماں کی کوکھ اجاڑنے میں مصروف عمل ہو گئے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دہشتگردوں کی کل تعداد چھ تھی وہ چھ ہو کر آپ کی ایف سی اور فوج کا مقابلہ کرتے رہے اور نتیجہ کیا نکلا دو دہشتگرد مار دیئے گئے دو نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا باقی دو کیا گرفتار ہوئے ہیں یا وہ بڑے سکون سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ؟

مختلف اخبارات مختلف خبر دے رہے ہیں کسی کے مطابق شہداء کی تعداد گیارہ ،کوئی پندرہ بتا رہا ہے اور کوئی ستاون کہہ رہا ہے اور زخمیوں کی تعداد بھی لگ بھگ ڈیڑھ سو کے قریب ہے۔ ماں دھرتی کی جوان اولاد کمینے دشمن کی گولیوں سے سفر آخرت پر روانہ ہوتی رہی ایام محرم میں پاک وطن کا مستقبل عصر حاضر کے یزید کے ظلم کا نشانہ بنتا رہا دھرتی ماں کا وجود لہو میں نہا گیا اک نئی کربلا چشم فلک نے پھر دیکھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کے ہمیں دشمن کی خبر نہیں دنیا کا سب سے بزدل دشمن جس کی ہم ناجانے کیوں کھل کے مذمت بھی نہیں کرتے آئے دن وہ ہمیں نقصان در نقصان پہنچا رہا ہے اور ہم سوائے بیان بازی کے اس کا کوئی حل نہیں نکال پا رہے ۔کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے ہم کب تک اس پاک دھرتی کی مائیں جوان بیٹوں کی لاشوں پر نوحہ کناں رہیں گی۔

Quetta Police Training College Attack

Quetta Police Training College Attack

کب تک دھرتی کی بیٹیاں بھائیوں کی لاشوں پر دھاڑیں ما ر مار کر روتی رہیں گی ؟ اگر یہ ناپاک جسارت ہندوستان کی ہے تو اسے سبق کیوں نہیں سکھلایا گیا ؟ اور اگر کسی کالعدم تنظیم کی کارروائی ہے تو اس کی تو اب تک جڑین تک اکھاڑ پھینکنی چاہئیں تھیں ۔میری دھرتی پہلے ہی اندرونی اور بیرونی سازشوں کی زد میں ہے ۔ اکیلے جنرل راحیل شریف ہی کی یہ ڈیوٹی نہیں ہے کہ وہ ان سازشوں سے نبرد آزما ہوتے رہیں ان سازشوں سے نمٹنے کے لیئے ساری قوم کو ایک ہو کر دشمن کو پہچاننا پڑے گا اور جہاں جہاں اس دھرتی کا دشمن دکھائی پڑے بلا تا خیر اس کا تیا پانچہ کر دیا جائے ہم ایسا کرنے سے کیوں ہچکچکا رہے ہیں جب یہ سب کچھ مکار ہندو کروا رہا ہے تو کلبھوشن کو ہم نے کیوں مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے اسے اب تک ٹکڑوں میں بانٹ دینا چاہیئے تھا دیگر جتنے بھی بھارتی ایجنٹ جہاں جہاں سے بھی گرفتار ہوئے ہیں۔

اب تک تو ان کی لاشیں کتے نوچ چکے ہوتے ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کیا ہمیں اس سے بھی کوئی بڑا منظر ابھی دیکھنا ہے ؟ میری دھرتی ماں کب تک جوان بیٹوں کے لہو سے غسل کر کے انہیں اپنے وجود میں پناہ دیتی رہے گی ؟حقیقی فرزند پاکستان سے مادر وطن یہ اشکوں سے لبریز ڈبڈبائی ہوئی آواز میں ایک ہی مطالبہ کر رہی ہے کہ بیٹا راحیل تمہیں خالق کائینات صدا سلامت رکھے میں اب مزید جوان لاشے اپنے وجود میں سمیٹ نہیں سکتی تم سے یہ ماں دھرتی ایک ہی درخواست کرتی ہے کہ دشمن کے ایجنٹوں کو اور ان کو پناہ دینے والے وقت کے ہر یزید کا خاتمہ کر دو خواہ وہ کسی بھی مقام پر براجمان ہے مجھے امید ہے کہ دکھیاری دھرتی ماں کے رستے ہوئے زخموں پر میرا راحیل جیسا فرزند ضرور مرہم رکھے گا دھرتی ماں یہ فریاد کر رہی ہے کہ مجھ پہ جان نچھاور کرنے والا میرا ہر فرزند دشمن کی سو نسلوں سے بھی زیادہ قیمتی ہے لہذہ ماں دھرتی کے ہر دشمن کو واصل جہنم کرنا فرض عین ہے وہ دشمن سرحد پار سے ہو یا اسی دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والا کوئی بے فیض ہو سب کو ختم کرنا اب واجب ہو چکا ہے بیشک وہ کوئی بھی اگر ثابت ہو جائے کہ ماں دھرتی کا دشمن یا غدار ہے وہ کوئی بھی ہو کیسا بھی ہو اب رعائت کے قابل نہیں یہ تو چاہتی ہے مادر وطن تو پھر دیر کس بات کی اس دھرتی کا دشمن ہندوستانی شیطانوں میں ہو ،دہشتگر حیوانوں میں ہو۔

General Raheel

General Raheel

پہاڑوں یا میدانوں میں ہو ،کہیں سیاستدانوں میں ہو یا اقتدار کے ایوانوں میں ہو کہیں بھی چھپا بیٹھا ہو اس کا قلع قمع واجب ہے اب وہ کسی رعائیت کا مستحق نہیں امید ہے کہ دھرتی ماں کی بقاء کا محافظ شہداء کی قربانیوں کا امین جنرل راحیل کسی بھی دشمن کو کسی بھی قیمت پر اب معاف نہیں کرے گا ۔ماں دھرتی کے وہ بیٹے جو اس خیال سے پولیس میں شامل ہوئے تھے کہ ٹریننگ کے بعد قوم و ملک کی حفاظت اپنا فریضہ سمجھ کر کریں گے ۔ ماوئوں کے کتنے ارمان ہونگے ان بیٹوں سے ، بہنوں کو کتنی امیدیں ہوں گی ان بھائیوں سے ، کتنے باپ ایسے ہونگے جن کا کل اثاثہ یہی بیٹے تھے جنہیں بے جرم مار دیا گیا ۔ یقین جانیں کل رات سے اب تک میں ایک پل بھی سو نہیں سکا مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک باپ ہوں اور اچانک میری آنکھیں اندھی کر دی گئی ہیں جیسے میری گود سے کھینچ کر بھیڑیئے میرا لخت جگر لے گئے ہوں کیونکہ شہید ہونے والے تمام فرزند میری دھرتی کے بیٹے ہیں میری قوم کے بیٹے ہیں میرے بیٹے ہیں جانے کیوں مجھ سے بیٹے تھے کیوں نہیں لکھا جا رہا کیونکہ وہ بیٹے تھے نہیں بیٹے ہیں اس لیئے کہ ان کی روحیں ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ ان بے غیرت اور بے ضمیر بے نسلے دشمن کو کس بے حیا وطن دشمن نے ٹریننگ سنٹر میں جانے کی اجازت دی۔

وہ بھی اسلحے اور بارود سمیت بیرونی دشمن اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا اندرونی دشمن مہلک ثابت ہوتا ہے سب سے پہلے تو اندر سے بظاہر دوست دکھائی دینے والے دشمن کو پہچان کر بر سر عام بوٹیوں میں تقسیم کر کے گوشت جانوروں کے آگے ڈال دینا چاہئیے خواہ وہ کوئی اغیار کے ٹکڑوں پہ پلنے والا گیدڑ ہو یا کوئی نام نہاد لیڈر ہو ۔نہیں چھوڑنا چاہئیے ۔اسی وطن کے ٹکڑوں پہ پل کے جو بھی غداری کا مرتکب پایا جائے اس کے وجود کو ٹکڑوں میں بانٹ دینا فرض اولین ہونا چاہئے ۔ سب سے پہلے تو اس بات کی پڑتال ہونی چاہئے کہ وہ دہشتگرد اس ٹریننگ سینٹر میں کس کی ایماء پر اور کس کی دی گئی چھوٹ سے اندر داخل ہوئے اور انہیں اسلحہ اندر سے دیا گیا یا وہ باہر سے اپنے ساتھ لے کر گئے اگر باہر سے لے کر داخل ہوئے تو سیکیورٹی والے کہاں تھے اگر وہیں تھے تو کون تھے وہ کون بے غیرت ہیں جو اپنی ماں دھرتی کی گود اجاڑنے کے لئے دشمن کا آلہء کار بنے اتنا برا نقصان کروانے والا خواہ کوئی بھی ہو اسے بھی جلد از جلد منظر عام پر لا کر اس کی نسل کو بھی مٹا دینا چاہئے جو میری دھرتی کی آغوش لہو میں تر کر رہا ہے ۔ ہندوستان تو پہلے بھی کئی بار بلوچستان کو دھرتی کے وجود سے الگ کرنے کے خواب دیکھ چکا ہے مگر میرے اللہ نے چاہا تو اس کا یہ خواب قیامت تک کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا انشاء اللہ ۔

اور دکھ ہوتا ہے مجھے سب کے سب مذمتی سیاستدانوں پر جو گھر بیٹھے ایسے سانحے پر مذمت کا بیان تو جاری کر دیتے ہیں مگر خود بہت کم ایسا ہوا ہو گا کہ یہ لیڈران قوم سارے کام چھوڑ چھاڑ کر جائے وقعہ پر جاتے ہوں ۔ معذرت کے ساتھ ایک بات کرنا چاہوں گا کہ اگر ان لیڈران میں سے کسی کو اچانک خبر ملے کہ آپ کا اپنا لخت جگر اس واقعے میں مارا گیا ہے تو کیا تب بھی یہ صرف مذمتی بیان جاری کر کے اپنی مصروفیات کو جاری رکھیں گے ؟نہیں ایسا نہیں ہو گا یہ بھاگم بھاگ ہر کام چھوڑ دیں گے اور روتے بلکتے پہنچ جائیں گے ۔ میری تمام اقتداریئے اور انتظاریئے لیڈران سے گزارش ہے کہ اگر ااپ قوم کے لیڈر ہیں تو یہ تمام شہداء اور زخمی آپ ہی کے بیٹے اور بھائی ہیں ان کو کندھا دینا اور زخمیوں کو دلاسہ دینا آپ کے فرائض میں شامل ہے آپ ایسا کر کے تو دیکھو آپ پر اللہ بھی خوش ہو گا مادر وطن بھی راضی ہو گی اور قوم بھی اپ ک ساتھ ہو گی۔

MS-H-Babar

MS-H-Babar

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile ;03344954919
Mail;mhbabar4@gmail.com