برما کے مظلوم مسلمانوں کی آہ و بکا

Burma Muslim

Burma Muslim

تحریر: خنیس الرحمان
آج ہم سب کے علم میں ہے کے سرزمین برما پھر سے عتاب کاشکار ہے.برما وہ سر زمین ہے جہاں خلیفہ ہارون الرشید کے دور حکومت میں چند مسلم تاجروں کے زریعے اسلام پہنچا .اس ملک میں مسلمان تجارت کی غرض سے آے لیکن ان مسلمانوں متاثر ہو کر بیشتر لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے یہ تعداد اتنی بڑھ گئی کہ 1430ء میں سلیمان شاہ کے ہاتھوں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں اس کے بعد تقریبا تین عرصہ تک اراکان میں مسلمانوں کی حکومت تھی.

برما میں موجود بدھوؤں کو اسلامی حکومت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور جونہی مسلمان ذرا کمزور ہوے وہ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور مسلم حکومت کو تہس نہس کردیا اس کے بارے میں تو میرے پغمبر ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا”جب مسلمان جہاد کو چھوڑ دیں گے اپنے دین میں کمزور پڑ جائیں گے تو کافر ان پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں” یہی آج برما کیساتھ ہوا.

اس کے بعد ان بدھوؤں نے قبضہ کرکے اس کا نام برما رکھ دیا.جب برطانیہ کا راج برصغیر پر ہوا اس وقت برما برطانیہ کی غلامی میں آگیا.سوسال سے عرصہ غلامی میں گزارنے کے بعد 1938ء میں برما کو آزادی نصیب ہوئی مگر تب مسلمانوں کو غلامی سے بھی بدتر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا.جس کے سبب مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور 5 لاکھ مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا جو سلسلہ آج بھی جاری ہے.

قارئین!گزشتہ ہفتے پھر سے برما کے مظلوںمسلمانوں پر قیامت برپا کردی گئی ہے ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے ,ان کو ہجرتوں کے بہانے کشتیوں میں بٹھا دیا جاتا ہے اور راستے میں کشتی کو سمندر میں ڈبو دیا جاتا ہے وہ کشتی میں نہیں بیٹھتے تو ان پر زبر دستی کی جاتی ہے,ماؤں بہنوں کی عزتیں تار تار کی جاتی ہیں,سمندر کے کنارے شہید کرکے لاشوں کو سمندر کی نظر کردیا جاتا ہے ا ور دوسری طرف ہمسایہ ملک بنگلہ دیش بھی پناہ دینے سے انکار کردیتا ہے آج وہ جائیں تو کہاں جائیں آس پاس سمندر ہے ہمساے بھی کٹھ پتلی ہیں جو انڈیا کہ حکم پر عمل درآمد کرتے ہیں آج وہ اسی محمد بن قاسم کے منتظر ہیں جس نے ایک غیرمسلم لڑکی کی عزت کو بچایا آج وہ پھر سے کسی خالد بن ولید,غوری و ایوبی کے منتظر ہیں جو ان کو بدھوؤں کے ظلم سے نجات دلاے.

Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila - Burma

Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila – Burma

2013ء میں بھی دس مسلم مبلغین کو دردناک اذیت کیساتھ قتل کر کے ان کی داڑھیاں اور سرکے بال مونڈ کر پورے علاقے میں اعلان کیا کے بدھوؤں کے راہنماؤں کو قتل کردیا گیا ہے اس واقعہ کے بعد بھی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے ان جلایا گیا ان کے جسموں پر کٹ لگاہ گئے مسجدوں کو شہید کردیا گیا مدرسے میں پڑھتے بچوں کو شہید کردیا گیا.مسلمانوں پر اس طرح ظلم وستم کیے کہ دل بھی دہل جاتا ہے.بستیوں کو اجاڑ دیا گیا. اسی طرح برما کے دارالحکومت رنگون میں آگ لگنے کے نتیجے میں تیرہ بچے شہید ہوگئے.آج برمی مسلمانوں کو شادی سے پہلے کثیر رقم حکومت کو دینی ہوتی ہے اور جو شادی شدہ ہیں ان پر دو سے زائد بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی ہے یہ سارا کچھ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کیا جارہا ہے.

ان کو بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے .کہاں ہے آ ج وہ اقوام متحدہ جو کے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن کی ٹھیکدار بنی ہے ,کہاں ہے آج سلامتی کونسل جو پاکستان میں اگر ظالموں کو پھانسی چڑھایا جائے تو خصوصی ٹیلیفون کرتی ہے اور برما کی دفعہ کوئی بیان بھی نہ جاری کرسکی آج وہ UNO والوں کو یمن کے اندر انسانی حقوق کا قتل عام نظرآتا ہے ,جن کو ضرب عضب کا آپریشن بے گناہ افراد کیخلاف نظر آتا ہے کیا برما میں مسلمانوں کے ساتھ خون کی خولی نہیں کھیلی جارہی ,کیا ان کو آگ کا عذاب نہیں دیا جارہا ,کیا ان کے بنیادی حقوق نہیں چھین لیے گئے اورمیں ان سے بھی پوچھتا ہوں جو پاکستان میں جہاد کو جائز سمجھتے ہیں اللہ نے تو حکم دیا ہے مسلمانوں نکل پڑو ان مسلمانوں کی مدد کے لیے جن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں.

Muslims in Burma

Muslims in Burma

کیا ان خوارج کو برما میں ظلم نظر نھیں آتا کیا ان عقل کے اندہوں کو مسلمانوں کا برما میں خون بھتا ہوا نظر نہیں آتا اور آج امت مسلمہ کوا کھو گئی ہے آج برما کے مظلوم مسلمان پکار پکار کے کہ رہے ہیں برما جل رہا ہے مسلماں تو کہاں ہے تیرا جزبہ ایمان کہاں ہے مشرق سے مغرب تک اے مسلمان تو کہاں ہے. لیکن آج ہم نے جہاد کو چھوڑ دیا ہے,اپنے آئڈیل کو بدل لیا ہے اپنے کرداروں کو بدل لیا ہے آج ہم ان کے پیچھے لگ گئے ہیں جن کہ کہنے پر برما میں,اعراق میں اور فلسطین و کشمیر میں ظلم و ستم ہو رہا ہے.آج ہمیں اپنی آزادی پر اللہ کاشکر ادا کرنا چاہیے.

آواز آر ہی ہے برما کی سر زمیں سے
آیا نہیں کوئی اک شخص ہماری مدد کو

تحریر: خنیس الرحمان