برما میں قیامت صغری اور امت محمدیہ

Burma Oppressed Muslim

Burma Oppressed Muslim

تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا
کون سا ظلم ہے جو برما کے مسلمانوں پر ڈھایا نہیں جا رہا۔ اپنے ہی ملک میں اجنبی بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں رہتے ہوئے ملکی شہری تصور نہیں کیئے جاتے۔ برما کے لاکھوں مسلمان سالوں سے بدھوں کے ظلم و ستم اور قہر و غضب کا شکار ہے۔ جو روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ ہزاروں کے حساب سے مسلمانوں کو گاجر اور مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں کو بھوکا پیاسا ترسا ترسا کر موت کی وادی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ بھوک افلاس قتل و غارت برما کے معصوم مسلمانوں کا مقدد بنا دیا گیا ہے۔ بدھوں نے مسلمانوں کے معاملے میں حوانیت شطانیت کو بھی پیچھے چھوڈ دیا ہے۔ کوئی مسلمان برما میں کوئی ملازمت نہیں کر سکتا۔

کوئی برما کا مسلمان برما میں کاروبار نہیں کر سکتا جب تک کوئی بدھو کاروبار میں شریک نہ کرے ۔ بدھوں سرمایا لگائے یا نہ لگائے۔ بدھوں کام کرے یا نہ کرے حصہ میں برابر کا شریک ہو گا۔ یہ برما کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ ورنہ وہاں کوئی مسلمان لڑکا کسی مسلمان لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا جب تک شادی کی اجازت بدھوں حکومت نہ دے۔ شادی کی اجازت مانگتے مانگتے دو دو سال سے زیادہ زلیل کیا جاتا ہے۔ صرف چکر پہ چکر ہی زلالت نہیں بلکہ شادی سے پہلے مسلمانوں کی عزت کے جنازے نکالے جاتے ہیں۔بات یہاں تک ہی ہوتی کاش۔ شادی کی اجازت سے پہلے اس بات کی گرانٹی بھی دینی لازمی ہے کہ شادی کے بعد کوئی مسلمان جوڑا دو سے زائد بچے پیدا نہیں کرے گا۔

مسلمانوں کو برما کی صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے جگہ جگہ بدھوں فوجی چھاؤنیاں بنائی جا رہی ہیں اور ان تمام چیک پوسٹوں کے اخراجات صرف برما کے مسلمانوں کو پورے کرنا ہے۔ لکڑیاں اینٹیں بجری لانا برما کے مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برما کے مسلمان دور دور جنگلوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ اور بدھوں فوجیوں کو اختیار ہے کسی بھی مسلمان کے گھر کسی بھی وقت داخل ہو کر جس کو دل کرے اغوا کر کے لے جائیں۔ ظالم بے بسوں بے کسوں والدین کے سامنے جوان اور معصوم بچیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اپنی درندگی کا نشانہ بنا کر موت کی وادی میں پہنچا دیتے ہیں یا گھر کی دلیز پر پھینک دیتے ہیں۔اس سے زیادہ اور کیا بے بسی ہوگئی کہ وہ بے چارے اجتجاج بھی نہیں کر سکتے اگر ایسا کرتے ہیں تو سینے پر گولیا ں برسائی جاتی ہے۔ گھر جلا دئے جاتے ہیں معصوم بچوں کو ماؤں کے سامنے زبح کیا جاتا ہے۔اور ہزاروں کے حساب سے زندہ مسلمانون کونظر آتش کیا جا رہا ہے مسلمان۔بچیوں کو غو ا کر کے جنسی درندگی کے بعد ملک کے قطبہ خوانوں کی زینت کے لئے فروخت کر دیا جاتاہے۔

Muslim Migrants

Muslim Migrants

ایسے حلات سے دلبرداشتہ ہوکرغموں سسکیوں آہوں کو سینے لگا کر ہجرت کے لئے سمندر کا انتخاب ہوتا ہے۔ قیامت تو پھر اس وقت ٹوٹتی ہے جب اپنے مسلمان ممالک اپنے اپنے بارڈرز کو سیل کر دیتے ہیں۔ اور یہ غموں کے مارے دکھی بے بس پھر سمندر کی لہروں سے لڑنے کے لئے ایک کنارے سے دوسرے کنارے ۔۔۔ نہ جانے کتنی کشتیاں سمندر کی لہروں کی نظر ہوتی ہونگی۔ کون جانتا ہے۔۔ معصوم بھوکے پیاسے سسک سسک کر کیسے مرتے ہونگے۔ اور جو بدنصیب سمندر کی لہروں سے بچ بھی نکلتے ہونگے انہیں بدھوں فوجی کیسے اپنا شکار بناتے ہونگے۔قصہ مختصر یہ خوفناک قیامت جو برما کے مسلمانوں پر ہر روز ڈھائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اسلام تو غیر مسلم کو پناہ دینے کی بھی رغبت دلاتا ہے ۔ کوئی بھی اسلامی ریاست ہو جب کوئی بھی غیر مسلم پناہ لینا چاہے تو اسلامی ریاست غیر مسلم کو پناہ دینے کی پابند ہے ۔ اور برما کے مسلمانون کو مسلم ممالک بھی پناہ نہیں دیتے ۔

برما کی بدھوں حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کی اس وقت سے کوشش میں ہے جب دو آزاد لڑکیاں بدھوں مہذب سے بیزار ہو کر خود اسلام میں داخل ہو کر سچی اور پکی مسلمان بن گئی۔ ان لڑکیوں کو ڈریا دھمکایا گیا کہ دین اسلام چھوڑ دو مگر وہ صاحب ایمان ہو چکی تھی وہ لذت ایمان کی دولت کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوئی اور بدھوں حکومت کی فوج نے انکو جام شہادت پلا کر ان کے قتل کو مسلمانوں کے سر تھونپ دیا اور بدھوں حکومت بدھوں افواج اور عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر معصوم بے گناہ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا اور ابھی تک یہ انسان نما بھڑ یئے مسلمانوں کیڑوں مکوڑوں کی طرح روند رہے ہیں۔

پورے برما ملک میں مسلم کمیونٹی کے خاف آگ بھڑکانے کے لئے بدھوں نے مسلم کے مشائخ اور علماء کرام کا ایک وفعد جو کم و بیش تیس افراد پر مشتعمل تھا جو برما کے ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہا تھا روکا اور سب کی باریش ( داڑھی مبارکہ ) کو کاٹا اور بے دردی سے زبح کیا اور بدھوں کے راہبروں کا لباس پہنا کر یہ باور کروایا کہ بدھوں مہذبی راہنماؤں کو مسلمانوں نے قتل کیا ہیں۔ یہ جھوٹی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے برما میں پھیلی اور پھر بچارے مسلمانوں پر قیامت صغریٰ ۔۔۔ بحثیت مسلمان۔۔ کتا ،بلی، چوہا، مر جائے تو ہنگامہ کھڑا کرنے والے اور حقوق کی رٹ لگانے والوں کو خواب غفلت سے نچوڑنا ہوگا اور بتانا ہوگا۔۔۔ امت محمدیہ کل بھی ایک تھی اور آج بھی ایک ہے پاکستان کی وہ تمام دینی تنظیمیں جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی ہے انکو برما کے مسلمانوں کے لئے بھی کام کرنا ہوگا

Prayers

Prayers

ہم اپنی اپنی جگہ دعاؤں میں برما کے مسلمانوں کے لئے دعا کریں
بحثیت پاکستانی قوم برما کے مسلمانوں کا مسلئہ بین القوامی پر اجاگر کریں پاکستانی میڈیا پر مکمل اور حقائق کے ساتھ پیش کریں یو این او اور سلامتی کونسل کی مدہوشی سے ان کو جگائے
اسلامی جموریہ پاکستان کی حثیت سے انکو اخلاقی سیاسی اور دینی مکمل حمایت دیں پاکستان کی سرزمین برما کے مسلمانوں کے لئے پیش کریں برما کی حکومت کو یہ باور کروانا ہوگا۔۔۔۔۔ اللہ رب العذت کے پیارے محبوب نبی آخر الزماں جناب حضرت محمد ۖ کے فرمان اقدس کی روشنی کے مطابق پوری امت محمدی ۖ ایک جسم کے مطابق ہے۔

جسم کے کسی بھی حصہ میں کوئی تکلیف ہو تو پورا جسم محسوص کرتا ہے۔ جو درد برما کے مسلمان کو ہے وہ درد پاکستان کے مسلمان کو بھی ہے۔ اور ہم اپنا درد ختم کرنے کے لئے کسی کے محتاج نہیں۔ جب یہ دو ٹوک پیغام برمائی حکومت کو سرکاری سطح پر مل جائے گا تو پھر برما مسلمانوں کے ساتھ حوانیت جیسا نہیں انسانیت جیسا سلوک کرے گا اور پھر صرف انسانیت جیسا سلوک ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو اقلیت تسلیم کر لیا جائے گا۔ اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ اور منہ پر چپ کی مہریں لگائے بیٹھے رہے تو اللہ تعالیٰ برما کے مسلمانوں کو کوئی طارق بن زیاد، محمد بن قاسم یا خالد بن ولید جیسا سپاسلار دیکر انکی مدد کر دے گا مگر دنیا اور آخرت میں زلت و رسوائی ہمارا مقدر بن جائے گئی۔

DrTaswar Hussain Mirza

DrTaswar Hussain Mirza

تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا