برمی مسلمانوں پر ظلم کی انتہائ

Burma Muslims Shaheeds

Burma Muslims Shaheeds

تحریر: نذیر احمد مثال
برمی مسلمانوں پر برمی فوج نے ظلم و بربریت کی انتہاء کر دی۔ سات کروڑ پانچ لاکھ آبادی والی بدھ مت ریاست برما میں سات لاکھ مسلمان اقلیتی حیثیت میں آباد ہیں۔ جب سے فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ تب سے برمی مسلمان فوج کے ظلم و زیادتیوں کا شکار ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ برما کے صوبے اراکان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، جن کے موبائل فون کے استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ برما کے دارالحکومت رنگون میں گیارہ مسلمانوں کو بس سے اُتار کر برمی فوج اور بدھ مت کے پیروکاروں نے بے دردی سے شہید کیا۔ مسلم اکثریت رکھنے والے صوبے اراکان میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ اِس تحریک کے پہلے مظاہرے پر فوجی حکومت نے بے دریغ فائرنگ کر کے ہزاروں مسلمان مظاہرین کو شہید اور زخمی کیا۔ مسلمان اکثریت والے صوبے کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔

جب برمی مسلمانوں نے پناہ لینے کیلئے بنگلہ دیش کا رخ کیا تو بنگلہ دیشی حکومت نے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ بھارت نواز مسلم دشمن بنگلہ دیشی حکومت نے بھارت کے کہنے پر نا صرف پناہ دینے سے انکار کیا بلکہ پہلے سے پناہ لینے والے مسلمانوں کو بھی بنگلہ دیش سے نکل جانے کی ہدایت کر دی۔ برمی حکومت کے ہاتھوں اب تک بیس ہزار سے زائد بے گناہ مسلمان شہید ہو چکے۔ پانچ سو بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئی ہیں۔ ہزاروں مسلمان نوجوان لاپتہ ہیں جن کے بارے میں کچھ پتہ نہیں وہ زندہ ہیں یا ظالموں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ برمی فوج نے مسلمانوں پر نئے طریقے سے مظالم ڈھاتے ہیں۔ عورتوں ، بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے ۔ وہ ناقابل بیان ہے۔ افسوس کا مقام ہے۔ برمی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر عالمی میڈیا خاموش تماشائی ہے۔ اقوام متحدہ او۔آئی۔سی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سب خاموش ہیں۔ ایسا لگتا ہے ، ظلم و ستم کے ہونے والے مظاہرے سب کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا جس نے ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے کے خلاف پوری قوم کو گھروں سے باہر نکالا۔

Media

Media

وہ میڈیا بھی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش ہے۔ ایسا لگتا ہے کسی اَن دیکھی قوت نے سب کو خاموش رہنے کی ہدایت کر دی۔ مسلم ممالک نے بھی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ البتہ ترکی کے صدر نے چپ کا روزہ توڑتے ہوئے برمی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام ظلم و ستم بند کر دے اوربرمی مسلمانوں کو پورے پورے شہری حقوق دے ، ورنہ برمی فوج کے خلاف ردعمل ہو سکتا ہے۔ جس کا بھیانک انجام ہو گا۔ پاکستانی قیادت حزب اقتدار و حزب اختلاف میں سے کسی نے بھی برمی مسلمانوں کے ساتھ مظالم پر خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا۔ سننے میں آیا ہے کہ عمران خان نے اقوام متحدہ کو برمی مظالم کے خلاف ایکشن لینے کیلئے خط لکھا ہے۔ موصوف اِسے اپنا کارنامہ سمجھتے ہوں گے لیکن یہ کوئی کارنامہ نہیں۔

برمی مظالم کے خلاف پاکستان میں عوامی سطح پر ایسی تحریک چلنی چاہئے تھی جو اقوام عالم کو سنجیدہ اقدام پر مجبور کر دیتی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کو خط لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ کو خود کارروائی کرنی چاہئے تھی۔ غیرمسلم کے حقوق کیلئے اقوام متحدہ ، امریکہ اور دوسرے بہت سے ممالک فوری ایکشن میں آ جاتے ہیں لیکن مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے چشم پوشی ہوتی ہے۔ اِس سے اقدام متحدہ اور متذکرہ ممالک کا دہرا معیار واضح ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں برما میں مسلمانوں کے ساتھ جو برتائو کیا جا رہا ہے وہ اس بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے جو ہندو ، یہود اور نصاریٰ بلاک یعنی بھارت ، اسرائیل اور امریکی اتحاد سے وجود میں آئی ہے۔ جس کیلئے امریکہ نے بھارت کے ساتھ دس سال کیلئے دِفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔

Rohingya Massacre

Rohingya Massacre

برما میں مسلمانوں کا قتل عام اور مسلمانوں پر ظلم و بربریت ایک ٹریلر ہے۔ اگر برما کے مظالم کے خلاف مسلم قیادتوں نے مل کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیںکیا۔ کوئی مزاحمتی کارروائی نہیں کی اور اِسی طرح خاموش تماشائی بنے رہے تو غیر مسلم ممالک جہاں مسلمان اقلیت سے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ عزت ، اقدار ، جان و مال کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ تمام کفر یا طاقتیں مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہو چکی ہیں۔ مسلم قیادتیں ہوش کے ناخن لیں اور اُمت مسلمہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے اور اُمت مسلمہ کا وقار قائم رکھنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں۔

تحریر: نذیر احمد مثال