کینسر نے احسن رشید کو مار دیا

Ahsan Rasheed

Ahsan Rasheed

تحریر : افتخار چودھری
پورے تین سال ہو گئے ہیں ایک ستارہ جو سعودی عرب ہی کیا پورے پاکستان میں چمکا تھا اسے ٹوٹے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ ہم اس قائد انصاف کی یاد میں ایک بھی پروگرام کا انعقاد نہ کر سکے۔کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ پی ٹی آئی میں لوگ زندہ لوگوں کو در گور کرنے میں لگے رہتے ہیں انہیں مردوں کی کیا پڑی۔نوید آیا اس نے بتایا ابو جی آج احسن صاحب کی برسی ہے۔بس یادیں زندہ ہیں ان کی نشانیاں اعزاز آصف ہیں راشد خان ہیں یہ نہ تو ان کے بیٹے ہیں نہ سگے بھائی پتہ نہیں ان دونوں کو دیکھ کر احسن صاحب کیوں یاد آ جاتے ہیں۔در اصل میں ایک روائت پسند آدمی ہوں جس کسی کے ساتھ وقت گزارتا ہوں اسے تا حیات یاد بھی رکھتا ہوں۔گرچہ مجھ جیسا میں خود ہی ہوں۔ہو سکتا ہے دوسرا کوئی مجھ سے بہتر ہو مگر اپنی سوچ اپنی خواہشات کا دائرہ اپنی ذات کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔

ایک آفتاب کو زیر زمین گئے دو سال بیت گئے۔احسن رشید کو اس دنیا چھوڑے ہوئے جس میں وہ جد و جہد کرتے لڑتے لڑتے ہتھیار پھینک گیا۔میں نے جس شخص کو جیسا پایا ایسا لکھا مجھے پورا یقین ہے اگر رو ء ف طاہر جو مسلم لیگ نون کے سکہ بند کالمسٹ ہیں اگر وہ بھی لکھیں گے تو جگنو سورج چاند ستارہ ہی لکھیں گے۔بھائی سے پہلا تعارف جدہ میں ہوا وہ فوکس پٹرلیم کے پریذیڈنٹ تھے ایک ایسی کمپنی جس میں پاکستانیوں کی اکثریت تھی وہ اس وجہ سے کہ احسن رشید طفر تالپور نے اس کی بنیاد رکھی اور اسے سعودی عرب کے کونے کونے تک پھیلا دیا۔ان لوگوں کے بارے میں جدہ کے اردو جریدے میں کرکٹ کے حوالے پڑھا کرتے تھے۔مجھے جہاں تک یاد ہے عمران خان کے ساتھ ان کا تعارف ١٩٩٣ کے بعد ہوا اس لیئے کہ جب ہم نے جدہ میں ڈاکٹر غلام اکبر نیازی کی زیر سربراہی شوکت خانم کے لیئے ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا تو اس وقت شوکت ترین تو عمران خان کی پذیرائی کے لئے جدہ پہنچے جو اس وقت سامبا میں بڑی پوسٹ پر متعین تھے۔البتہ تحریک انصاف جب بنی تو احسن رشید ان پانچ بانی ممبران میں تھے جو عمران خان کے ساتھ سفر و حضر کے ساتھی بنے۔ان پانچ پیاروں میں ایک نعیم الحق بھی تھے دوسرے حفیظ خان ١٩٧٢ میںو پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہے ہیں
پانچویں کا نام یاد نہیں آ رہا معلوم کر کے بتائوں گا۔

احسن رشید کو اللہ تعالی نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔لاہور کی ارائیں برادری سے تعلق تھا۔ خوبی یہ تھی کے لوگوں کے کام آتے تھے۔کہنے لگے کہ سستی روٹی کے لئے تندور کھولنے کی کوشش کی کامیابی ملی ایک روز سوچا شہباز شریف سے مدد لیتے ہیں پنجاب کے غریب لوگوں کا بھلا ہو گا۔مجھے بتایا کہ میں نے فون کیا تو میاں صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور باتوں باتوں میں مجھ سے اس پروجیکٹ کے خد و خال پوچھے میں نے بتا دیئے۔ بعد میں پتا چلا سستی روٹی کا پروجیکٹ میاں شہباز شریف نے اعلان کر دیا جو بری طرح فلاپ ہوا۔

جدہ میں ذولقرنین علی خان احسن رشید نے غریب اور نادار بچوں کے لئے اسکول بنایا ۔ان کی وفات کے بعد ذوالقرنین اسے کامیابی سے چلا رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستانیوں کے لئے نوکریوں کے مواقع پیدا کرتے ہیں اللہ کے کرم سے جب تک سعودی عرب رہا سب سے زیادہ نوکریاں دلوانے کا سہرہ خاکسار کے سر رہا انہیں جب بھی کسی پاکستانی کی نوکری کے لئے کہا مقدور بھر مدد کی ویسے تو اور لوگ بھی ہیں پاکستانیوں کی تقریبات میں سٹیجوں پر بیٹھنے کے شوقین مگر کام کے نہ کاج کے بس دشمن اناج کے۔احسن رشید نے پارٹی سطح سے بالاتر ہو کر لوگوں کو نوکریاں دیں ایک بار مڈل ایسٹ پیپلز پارٹی کے اہم عہدے دار کو ملازمت دی لوگوں نے اعتراض کیا تو کہنے لگے یار بس کرو پاکستانی ہے اور بندہ کام کا ہے ہو سکتا ہے پی ٹی آئی جائن کر لے۔

خشک سالی کے دور میں انور مقصود کو جدہ بلوایا شاہد آفریدی اور ابرارالحق بھی آئے شیراٹن میں ایک خوبصورت تقریب منعقد کی اور خطیر رقم پاکستان بھجوائی بلوچستان میں کنویں کھدوائے غرض غرباء کے لئے جو کچھ ہو سکا کمیونٹی کے ساتھ مل کر کیا۔جہاں تک عمران خان سے تعارف کی بات ہے یہ ورلڈ کپ کے بعد ہی کہیں ہوا اس لئے کہ عمران خان جب ورلڈ کپ جیت کر گئے تو سارا سہرہ غلام اکبر خان نیازی مسعود پوری اور ہامرے دیگر دوستوں کے سر ہے میں اس کمیٹی کا سیکرٹری تھا جس نے فنڈ اکٹھے کئے تھے ایک بڑی تقریب ہالیڈے ان جدہ مکہ روڈ میں ہوئی جس میں سارے پاکستانیوں نے جی بھر کر پیسے دئے عمران خان میری گاڑی میں پاکستانی اسکول عزیزیہ بھی گئے۔

اس وقت کی ایک یاد گار تصویر بھی یاد دلاتی ہے ۔احسن رشید ٢٠١٣ کے انتحابات میں شکست کھا گئے ان کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب وہ پنجاب کی صدارت کا الیکشن ہار گئے۔میرے سینے میں ایک راز ہے جو مجھے احسن رشید نے بتایا تھا کہ اس کی شکست کا ذمہ دار کون تھا؟یہ وقت آنے پر بتائوں گا۔یقین کیجئے پوری تحریک انصاف کو اکٹھا کر لیا جائے ان جیسا شفیق ہمدرد پیار کرنے والا دوست میسر نہیں ہو سکتا۔ایک بار پنڈی آ رہے تھے میں نے کہا یہاں آنا ہے تو کھانا میرے ساتھ کھانا ہو گا کہنے لگے یار پچیس تیس لوگ ہوں گے کہا سو ہو جائیں سہیل رانا کو اللہ خوش رکھے اعزاز آصف اور دیگر دوستوں کو سات نمبر گلی والے گھر بلوایا ۔کیا دن تھے احسن رشید نے جی بھر کے کھانا کھایا۔میں ان کی خوشی میں شریک ہونے لاہور گیا بیٹے کی شادی تھی۔ساری رات سفر کیا کہنے لگے یار اتنی دور سے کیوں آئے ہو؟برے خوش ہوئے بھابی صاحبہ کو بلوایا اور کہا نادرہ دیکھو افتخار خود گاڑی چلا کر پنڈی سے آیا ہے اور ابھی رات کو واپس جا رہا ہے۔میں رگڑے کے دنوں میں تھا سعودی عرب سے جنرل مشرف کی مہربانیوں کا شکار ہو کر نیا نیا آیا تھا۔

ایک بار پام کلب میں لے گئے بڑے پیار سے کھانا کھلایا۔اور ایک بار کا ذکر کرتا چلوں پنڈی میں ورکر کنونشن تھا مجھے جدہ فون کیا یار آسکتے ہو میں نے اگلے روز کی فلائیٹ پکڑی اور ایک ایسا کامیاب فنکشن کروایا جو میری جڑوں میں بیٹھ گیا میری کیا اظہر میر زاہد کاظمی اعزاز آصف فیاض الحسن چوہان فوزیہ قصوری سارے ہی رگڑے میں آ گئے اور ٢٠١٣ میں کسی ایک کو ٹکٹ نہیں ملا۔خیرکبھی کبھی اس تصویر کو دیکھتا ہوں جو سید پور روڈ کے شادی خانے کی تھی جس میں لیڈران پنڈی بینر پر تھے۔سب کی چھٹی ہو گئی۔فرح آغا بھی تھیں اور بہت س بہنیں۔احسن رشید پنجاب کے صدر تھے وہ کیا ہارے ہم سب ہار گئے۔یہ تو ہماری اندر کی باتیں تھیں۔لیکن ایک بات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی جدہ میں ٢٠١٢ میں عمران خان جب وہاں گئے تو ان کی تقریر ہو چکی میں نے چاہا کہ ؤپ شکریہ ادا کریں کہنے لگے قائد تحریک کے بعد میں کیا بات کروں گا وہ عمران خان کا بڑا احترام کرتے تھے خود عمران خان نے کہا ہے کہ اگر احسن رشید نہ ہوتے تو شوکت خانم بند ہو سکتا تھا۔کینسر کا ہسپتال بنانے میں اہم ستون بننے والے کینسر ہی کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر آج سے تین سال پہلے اس دنیا سے چلے گئے۔اللہ مغفرت کرے۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : افتخار چودھری