کینٹ بورڈ واہ کینٹ میں بحق سرکار ضبط ہونے والی اشیاء کی لوٹ مار کا بازار گرم

Ashfaq Hussain Taxila

Ashfaq Hussain Taxila

ٹیکسلا (ڈاکٹر سید صابر علی سے) “مال مفت دل بے رحم” کینٹ بورڈ واہ کینٹ میں بحق سرکار ضبط ہونے والی اشیاء کی لوٹ مار کا بازار گرم، خرد برد میں ملوث اہلکاروں کو افرسان کی آشیر باد حاصل ،کینٹ بورڈ کے ہی ملازم نے لوٹ مار کا راز افشاں کردیا، منع کرنے پر چشم دید گواہ کو کینٹ بورڈ کے اثرو رسوخ کے حامل ملازمین نے عتاب کا نشانہ بنا ڈالا ،ڈنڈوں لاتوں اور گھونسوں کی بارش اپنے ہی پیٹی بھائی کو مار مار کر لہو لہان کردیا۔

بچارا ملازم چیخ و پکار کرتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی،جسم پر نیل کے نشان، گردوں میں تکلیف کے باعث پیشاب سے خون اور پیپ آنے لگی،معاملہ کو دبانے کے لئے افسران کی غریب ملازم کو پیسوں کی لالچ علاج معالجہ کے لئے تین ہزار دھما دیئے،غریب ملازم انصاف کے حصول کے لئے تھانے پہنچ گیا،پولیس نے بھی تاحال اثرو رسوخ کے حامل کینٹ بورڈ کے ملازمین کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی،متاثرہ شخص کی ابرار ، محفوظ و دیگر کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ،اعلیٰ حکام سے داد رسی کی اپیل، انجینیئر اسرار خٹک اور اوورسیر انعام علی کی ملی بھگت ست مجھے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

کینٹ بورڈ کے متاثرہ ملازم اشفاق حسین کی میڈیا سے گفتگو ، تفصیلات کے مطابق اشفاق حسین ولد محمد خان جو کہ کینٹ بورڈ میں بطور مالی عرصہ تیس سال سے کام کر رہا ہے نے میڈیا کو بتایا کہ ہفتہ کے روز اسکی ڈیوٹی دو سے دس تھی وہ اپنے سرکاری کام سے ڈراوئیور کے ہمراہ کینٹ بورڈ کے سٹور لائق علی چوک میں گیا جہاں جہاں سے ا س نے سرکاری ڈیوٹی کی بجاآوری کے لئے ٹریکٹر نکالنا تھا۔

مگر وہاں پر کچھ لوگ کینٹ بورڈ کے ملازمین محمدابرار خان اور محمد محفوظ سے ڈیل کر رہے تھے تھوڑی دیر بعد ایک پراوئیویٹ سوزوکی وہاں آئی اور اس میں سٹور سے لوہے کے بڑے پائپ نکال کر شفٹ کئے گئے جس پر میں نے انھیں منع کیا جس پر ابرار اور محفوظ نے سات آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ مجھے گودام میں بند کردیا اور بانس لیکر مجھے مارنا شروع کردیا،میں نے بیت واویلہ کیا کہ مجھے کیوں مارتے ہو جس پر ابرار اور محفوظ نے کہا کہ تمھیں اپنی آنکھوں سے یہ سارا تماشا دیکھنے کی سزا دیتے ہیں،تاکہ تم اپنی زبان بند رکھو ، میں نے بہت منت سماجت کی مگر ظالموں نے مجھ پر ظل روا رکھا جو آدھ گھنٹے سے زائد جاری رہا میں نے با مشکل وہاں سے بھاگ کر جان چرھائی وگرنہ یہ لوگ مجھے جان سے مار دیتے ، متاثر ملازم نے میڈیا کو اپنے جسم پر ہونے والے تشدد کے نشانات دکھائے۔

متاثرہ کینٹ بورڈ کے ملازم کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فریاد لیکر کینٹ ایگزیکٹیو آفیسر کے بنگے گیا مگر وہ موجود نہ تھے ، دفترآیا جہاں انجینئیر اسرار خٹک موجود تھے کو تمام ماجرا بتایا انھوں نے کاہ کہ معاملہ کی انکوائری کریں گے،اس کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے محفوظ نے کال کر کے انجینیئر اسرار خٹک کوبتا دیا تھا کہ ہم نے اشفاق کی زبردست قسم کی پٹائی کر دی ہے اب آپ ہی سنبھالنا،اس سے صاف ظاہر ہے کہمجھے انجینیئر اسرار کے حکم پر عتاب کا نشانہ بنایا گیا،اسکا کہنا تھا کہ ان سرکاری اہلکاروں کو غنڈہ گردی کے لئے مکمل آشیر باد حاصل ہے،جس کی پشت پناہی انجینیئر خود کرتا ہے،اس نے مزید بتایا کہ اوورسیر انعام نے شام کو انجینئیر کے کہنے پر مجھے دفتر بلایا اور کہا کہ معاملہ کو یہیں دبا دو ورنہ نتائج خطرناک ہونگے۔

اس نے مجھے تین ہزار روپے تھمائے اور کہا کہ اور بھی دیں گے اس سے اپنا علاج کراو اور زبان بند رکھو،اسکا کہنا تھا کہ ان درندی صفت انسانوں نے میری جان کی قیمت تین ہزار روپے لگائی، اسکا کہنا تھا کہ اس ضمن میں مقیم سپروائزر نے بھی مجھے فون کیا اور کہا کہ معاملہ کو ختم کرو،اسکا کہنا تھا کہ اس دروان جب مجھے مار پیٹ رہے تھے میرے ساتھ ڈرائیور بھی موجود تھا انھوں نے اسے بھی مارا پیٹا ڈر سے وہ بھاگ گیااور پیچھے ہٹ گیا۔

مگر ان لوگوں نے باہم صلاح مشورہ ہوکر مجھے آدھ گھنٹے تک زود کوب کیا اور انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا ، مذکورہ واقعہ نے کینٹ بورڈ کے اندر ہونے والی کر پشن کا پول کھول دیا کہتے ہیں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو مال کینٹ بورڈ کا انفورسمنٹ کا عملہ تجاوزات کے سلسلے میں اٹھا کر کینٹ بورڈ کے سٹور واقع لائق علی چوک میں جمع کرتا ہے وہاں پر کیا کچھ ہوتا ہے کس طرح یہ مال جس کی بابت یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مال مفت دل بے رحم ، یہ کرپٹ اہلکار جنہیں افسران کی مکمل آشیر باد حاصل ہے کس طرح اسکا باہر و باہر وسودا کر کے متعلقہ سٹور سے یہ اشیاء فروخت کرتے ہیں ، اور مال بناتے ہیں جس سے بلاشبہ افسران بھی مکمل طور پر مستفید ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ محمد ابرار خان اور محفوظ نامی کینٹ بورڈ کے اہلکاروں کے خلاف متعدد مقدمات درج ہیں جس میں کرپشن کے بھی واقعات شامل ہیں جس کی پاداش میں یہ اہلکار متعدد مرتبہ نوکریوں سے ڈس مس ہوچکے ہیںلیکن بھاری رشوت کے عوض یہ لوگ دوبارہ واپس آجاتے ہیں کیونکہ کرپٹ افسران کا انکے بغیر بھی گزارا نہیں جو ان لوگوں سے غلط کام کرو اکر راتوں راتوں امیر بننا چاہتے ہیں جو کینٹ بورڈ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں لوگوں کا بحق سرکارضبط شدہ مال کس طرح اونے پونے فروخت ہورہا ہے یہ کینٹ بورڈ کے اعلیٰ حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔

ادہر متاثرہ ملازم جس کی تیس سالہ نوکری ہے نے ڈی جی کینٹ بورڈ ، وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان ، وزیر اعظم نواز شریف ، چیئرمین پی او ایف بورڈ سے اپیل کی ہے کہ کیٹ بورڈ میں موجود کالی بھیڑوں کا بھرپور احتساب کیا جائے اور مجھے انصاف فراہم کیا جائے۔

ڈاکٹر سید صابر علی ٹیکسلاموبائل نمبر0300-5128038