اسطرح کرتے ہیں نیکی لوگ مجبوری کیساتھ
روزوشب کا یہ سلسلہ ہے کیا
وقت ہر اِک غبار سے باہر
حال کچھ اسطرح دلوں کا ہے
مروت تھی کچھ گِلے تھے کہیں
یہ زہر ہے یا کوئی نشہ مٹھاس کا
اِک نئے دور کی بنیاد کو رکھا جائے
آر سے پار نہیں نکلا
پھول گالوں کو تو آنکھوں کو کنول کہتا رہا
اُسی کا نام لیا جو غزل کہی میں نے
چھوڑی ہوئی بستی کا وہ منظر نہ ملیگا
شام سے تنہا کھڑا ہوں یاس کا پیکر ہوں میں
کمرے کی کھڑکیوں پہ ہے جالا لگا ہوا
اب نظر آنا بھی اُس کا کہانی بن گیا
کام بھی کرنا جنوں کا تو نہ ظاہر ہونا
گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر
کچھ ایسے خشک ہوتا جارہا ہوں
طاق پر جزدان میں لپٹی دُعائیں رہ گئیں
اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
ہلے مکاں نہ سفر میں کوئی مکیں دیکھا